تحریک لبیک پاکستان کہاں گئی؟


گزشتہ جمعہ کا قصہ ہے کہ جناب خادم رضوی کی مذہبی سیاسی پارٹی تحریک لبیک پاکستان کے خلاف کریک ڈاون شروع کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کریک ڈاون میں تحریک لبیک کے ڈیڈھ سو سے زائد کارکنان اور قائدین وغیرہ کو گرفتار کیا گیا۔ آخری اطلاعات تک گرفتارکیے گئے کارکنان اور کچھ قائدین جیل میں ہیں جبکہ خادم رضوی صاحب کو سرکاری گیسٹ ہاوس میں بطور مہمان خاص منتقل کردیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق خادم رضوی کی نقل وحرکت پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انہیں سرکاری گیسٹ ہاوس میں ایک سے تین ماہ تک پی سی او قانون کے تحت نظر بند رکھا جائے گا۔

یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ تحریک لبیک کے خلاف کریک ڈاون کیوں شروع کیا گیا تھا؟ اگر کچھ لوگ اس بات سے واقف نہیں تو میں بتائے دیتا ہوں۔ پچیس نومبر کے دن (جی جی وہی پچیس نومبر جو دو تین پہلے گزرا ہے ) خادم رضوی اینڈکمپنی نے فیض آباد اسٹائل کے دھڑنا دینے کا اعلان کیا تھا۔ حکومت نے نقص امن کی خاطر مجبورا یہ کریک ڈاون شروع کیا۔ سنا ہے کریک ڈاون کچھ سخت تھا اس لئے بڑھکیں اور دھمکیاں دم توڑ گئیں اور خادم رضوی صاحب سرکاری گیسٹ ہاوس کی زینت بن گئے۔

تمام میڈیا نیوز چینلزاور اخبارات میں بھی اسی کریک ڈاون کے حوالے سے ایک اور رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ ہوا کچھ یوں ہے کہ ملک کے تمام حساس اداروں نے حکومت پاکستان کو ایک سمری بھیجی ہے۔ اس سمری میں حکومت پاکستان سے کہا گیا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے جن کارکنان اور قائدین کو گرفتار کیا گیا ہے ان سب کے خلاف بغاوت کے مقدمات چلائے جائیں اور کم از کم ایک سال تک خادم رضوی اور پیر افضل قادری سمیت کسی کو بھی باہر نہ آنے دیا جائے۔ جی ہاں وہی پیر افضل قادری جو فوج اور عدلیہ کے خلاف مکروہ، کافرانہ اور غدارانہ قسم کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے یہ پیر افضل قادری کہاں ہیں؟ کدھر گئے ہیں؟ خادم رضوی کا تو سب کو معلوم ہے کہ وہ سرکاری مہمان ہیں؟ سوال یہ ہے کہ اپنے پیر افضل قادری کدھر غائب ہوگئے ہیں؟

ان کے بارے میں بھی کچھ ذرائع یہی بتا رہے ہیں کہ پیر صاحب کو بھی گھر میں نظر بند کردیا گیا ہے، اب وہ کہیں آسکتے ہیں، نہ جاسکتے ہیں۔ ریاست بھڑک اٹھی بہت اچھی بات ہے کاش یہی ریاست فیض آباد دھرنے کے دوران جاگ اٹھتی؟ خیر پرانی باتوں کو کیا چھیڑنا۔ ریاست یاد رکھے کہ یہ وہ لوگہیں جنہوں نے فوج اور عدلیہ کے خلاف بغاوت کی تھی۔ حاضر سروس ججوں کو قتل کرنے کا فتوی جاری کیا تھا اور فوج کے اندر بغاوت کا پروپگنڈہ کیا تھا۔ امید ہے اب ریاست بہت ساری چیزوں کو ذہن میں رکھے گی؟

جب کریک ڈاون ہورہا تھا۔ خادم رضوی کو گرفتار کیا جارہا تھا، تو سب یہ کہہ رہے تھے کہ بہت بڑا ردعمل آئے گا۔ لیکن ثابت ہوگیا کہ اگر ریاست اپنی رٹ بحال کرنے پر آئے اور قانون کے مطابق کارروائی کرے تو ریاست بتاتی ہے کہ وہ کیا ہے اور کتنی طاقتور ہے۔ امید ہے ریاست کو اپنی طاقت کے بارے میں اب علم ہوچکا ہوگا؟ یہ وہی تحریک لبیک ہے جس نے فیض آباد میں تباہی مچادی تھی۔ اس سے ایک اور سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ وہ تباہی بھی برپا نہ ہوتی اگر تحریک لبیک کو کھلی چھٹی نہ دی جاتی؟

الحمدللہ اب کچھ سمجھدار لوگوں نے تحریک لبیک سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے اور کچھ تیزی سے لاتعلقی کا اعلان کررہے ہیں۔ سنی تحریک نے واضح کہہ دیا ہے کہ ان کا تحریک لبیک پاکستان سے کوئی تعلق نہیں لہذا ان کے کارکنوں اور قائدین کو گرفتار نہ کیا جائے۔ سنی تحریک نے ہنگامی پریس کانفرس کرکے دنیا کو بتایا ہے کہ وہ نفرت اور تعصب کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ محب وطن ہیں اور ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اچھی بات ہے کہ سنی تحریک والے بھائی اچھے بچے بن گئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی تحریک لبیک سے جڑے بہت سارے لوگ تحریک لبیک سے لاتعلقی کا اعلان کررہے ہیں اور ساتھ اپنے ویڈیو پیغامات میں کہہ رہے ہیں کہ انہیں پولیس اور ایجنسیوں والے تنگ نہ کرے وہ تو عرصہ ہوا خادم رضوی اینڈ کمپنی کو چھوڑ چکے ہیں۔ کیا بات ہے پولیس اور ایجنسیوں کہ ایک ہی ہفتے میں سب ٹھیک کردیا اور اس غبارے سے ہوا نکال دی گئی جس میں برسوں سے ہوا بھری جارہی تھی۔ ایک اور بات یہ کہ سخت کریک ڈاون کیا گیا۔ سخت قسم کا کریک ڈاون کرنے پر امن پسند پاکستانی عوام ریاستی اداروں کے شکر گزار ہیں۔

فیصل آباد کے ایک شہری ہیں جن کا نام محمد عباس حیدر ہیں۔ انہوں نے تحریک لبیک پاکستان کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا۔ ان کا بھی ویڈیو پیغام جاری ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ سچ ہے کہ انہوں نے ٹی ایل پی کی ٹکٹ سے الیکشن لڑا تھا، لیکن اب ان کا ٹی ایل پی کی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں۔

ریاست ہی طاقتور ہوتی ہے۔ ریاست ہی امن برپا کرسکتی ہے۔ ریاست کو کھلے عام کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ ریاست نے اب تک اچھا کام کیا ہے۔ لیکن ہم پاکستانیوں کو شہر یار آفریدی اور اپنے عمران خان سے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں وہ ایسا فیصلہ نہ کردیں جس سے ریاست اپنی پرانی کیفیت میں وآپس لوٹ جائے۔ ریاست پاکستان کے لئے اب وقت آگیا ہے کہ ان قوتوں پر ہاتھ ڈالیں جو ملک میں نفرت، تعصب اور انتہاپسندی کو فروغ دے کر پوری دنیا میں پاکستان کا نام برباد کررہے ہیں۔ ٹھیک ہے ڈیڈھ سال تک آپ نے تحریک لبیک پر ہاتھ نہیں ڈالا، اسے پاکستان کی پانچویں بڑی سیاسی جماعت بنادیا۔ لیکن جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے؟ اب ان کو اچھا بچہ بنائیں اور ملک مو مزید تباہی سے بچائیں۔

سول سوسائٹی کی 36 اہم ترین شخصیات نے پاکستانی اخبارات میں ایک مشترکہ اپیل جاری کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تحریک لبیک کے جن قائدین نے ریاستی اداروں کے خلاف گفتگو کی ہے یعنی فوج اور عدلیہ کے خلاف باتیں کی ہیں ایسے افراد کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری، انسداد دہشت گردی کے مقدمات چلائے جائیں۔ ریاست کو اب مزید منت سماجت کا راستہ ترک کردینا چاہیے۔ تحریک لبیک جیسی قوتوں کو کھلی چھٹی دیدی گئی تو اس سے ملک میں خوفناک عدم برداشت پیدا ہوگا، یہ قوتیں مضبوط ہوں گی اور اقلیتی کمیونیٹیز کے لئے مشکلات بڑھیں گی، ا سکے ساتھ ساتھ پاکستان کا مستقبل بھی تاریک ہوجائے گا۔

سول سوسائٹی کی جن چھتیس شخصیات نے یہ مطالبہ کیا ہے ان میں کچھ نامی گرامی سابقہ ججز ہیں، کچھ دانشور اور ادیب ہیں، کچھ کا تعلق پاک فوج سے رہا ہے۔ سماجی کارکن جبران ناصر، معروف وکیل بابر ستار، سابقہ جج رشید رضوی، معروف دانشور آئی اے رحمان، فرحت اللہ بابر، افراسیاب خٹک، ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، غازی صلاح الدین ایچ اے منیر، جلیلہ حیدر، میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جنرل اختر، میجر ریٹائڑد اسد عباس، معروف عالمی شخصیت شرمین عبید، جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک کے گرفتار قائدین اور کارکنان جنہوں نے فوج اور عدلیہ کے خلاف کھلے عام باتیں کی ہیں، سختی سے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ (جلیلہ حیدر کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنا موقف آسیہ بی بی کے کیس کے حوالے سے دیا تھا جسے کنفیوز کر کے آرٹیکل چھے اور دیگر معاملات سے جوڑا گیا ہے: مدیر)

امید ہے حکومت پاکستان، عدلیہ اور فوج اب ایسی قوتوں کے خلاف کارروائی کریں گے اور انہیں کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ جو ہوگیا، وہ ہوگیا، اب بس۔ خدا کے لئے اس ملک کا سوچیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).