پانی ہے زندگی :


مُلانصیر الدین کے کھیت میں ایک مرتبہ پرائی بھینس گھس آئی جو بنا ہچکچائے کھیت سے لطف اندوز ہو رہی تھی مُلا صاحب نے جب یہ ماجرہ دیکھا تو شدید غصے کی حالت میں آ گئے جو کافی دنوں سے اس قسم کے المیوں سے پریشان تھے چنانچہ دل کا غم ہلکا کرنے کا یہ اچھا موقع تھا، ایک ڈنڈا اٹھا کر گائے کے طرف لپکے۔ گائے نے جیسے ہی مُلا صاحب کے تیور دیکھے وہ بھاگ گئی اور ان کے پہنچ سے بہت دور ہو گئی۔ مُلا صاحب نے لاکھ کوشش کی مگر گائے کو ڈنڈا مارنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور خون کے گھونٹ پی کررہ گئے اور شدید غصے کے عالم میں نا مراد واپس ہو گئے۔

کچھ دنوں بعد ایک مویشی بازار میں دیکھا کہ وہی گائے بکنے کے لئے کھڑی ہے گائے کے مالک نے اس کی رسی پکڑ رکھی ہے۔ ملا صاحب نے یقین کے لئے گائے کا بغور جائزہ لیا گویا امید بر آئی ہو۔ انہوں نے ایک ڈنڈا اٹھایا۔ آؤ دیکھا نا تاؤ، گائے پر برسانا شروع کر دیا۔ گائے کے مالک نے یہ تماشا دیکھا تو تشویش کے ساتھ اس کا ہاتھ پکڑا اور مُلا سے گویا ہوئے۔ ”آپ کو شرم آنی چاہیے۔ اس بے زبان پر ظلم کرتے ہوئے اس بے چارے نے تیرا کیا بگاڑا ہے؟ جو تم نے مار مار کر اس کی حالت خراب کر دی“

مُلا صاحب کا جواب بھی قابل غور تھا انہوں نے کہا ”تمھیں درمیان میں بولنے کا کوئی حق نہیں۔ اس گائے کو اپنا قصور معلوم ہے، اسی لئے تو خاموشی سے ڈنڈا سہ رہی ہے۔ اگر یہ حق پر ہوتی تو خود زبان کھولتی۔ اس کی خاموشی بتا رہی ہے کہ یہ مجرم ہے“ مالک سیدھا سادہ آدمی تھا مان گیا او رمُلانصیرالدین کو غصہ ٹھنڈا کرنے کی اجازت مل گئی۔

ہماری مثال بھی اس گائے سی ہے ڈنڈے سہتے ہیں چپ رہتے ہیں ظلم سہتے ہیں چپ رہتے ہیں۔ ہم ہی مقتدر طبقات کو منتخب کر کے ایوانوں کی زینت بناتے ہیں مگر ان کو رحم نہیں آتا۔ ڈنڈا سہتے سہتے 71 سا ل ہو گئے اور گائے کی طرح ہم خاموشی سے خود کو مجرم سمجھ کر بے زبان بنے ہوئے ہیں۔ مہنگائی کا عذاب ہو یا حقوق کی پامالی سماجی نا انصافی ہو یا معاشی بد حالی بجلی کی بندش ہو یا گیس کی عدم فراہمی یا پانی کی قلت یہ سب ڈنڈے ہم سہتے ہیں اور اگر کبھی کبھار لب کشائی کر بھی لیں تو پھر ڈنڈوں کی برسات کے ساتھ گرفتاری اور شیلنگ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

جی ایسی ہی صورتحال گذشتہ دنوں دیکھنے میں جب کراچی کے مختلف علاقوں کے مکین کئی دنوں سے پانی کی عدم فراہمی پر متعلقہ اداروں اور اپنے منتحب نمائندگان سے نا مراد ہو کر سڑکوں پر نکل آئے متعلقہ اداروں کے سربراہان کے کان پر جوں تک نا رینگی البتہ پر امن احتجاج کو سڑک بند کرنے کا پاداش میں ڈنڈے سہنے پڑے۔ آئے روز اس قسم کے واقعات دراصل کراچی کے باسیوں کے لئے نہیں بلکہ ذمہ داران کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

کراچی کی آبادی دن بدن تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے حکام کے پاس کوئی ٹھوس پلان موجود نہیں جبکہ کراچی کے سرحدی علاقوں پر تیزی سے نئی کالونیاں وجود میں آ رہی ہیں جس کی وجہ سے شہر کے وسط میں مقیم آبادیوں کو روز بروز نئے نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جن میں لانڈھی حبیب بنک چورنگی قیوم آباد اور بلدیہ ٹاؤن کے علاقے قابل ذکر ہیں۔ یہاں کی آبادیوں میں زیادہ تر مکین مقامی فیکٹریوں اور مل ملازم غریب طبقہ عوام ہیں جن کا اس مہنگائی کے طوفان میں بمشکل گزرا ہوتا ہے۔

اور زندہ رہنے کے لئے پانی جیسی بنیادی نعمت سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں بوند بوند کے لئے ترسنے والے یہاں کے عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ پانی جو ہمارے لئے ہے ہمیں ملنا چاہیے وہی پانی ٹینکر مافیا ہم پر مہنگے داموں فروخت کرتا ہے ان کے ٹینکر جن ہائیڈرینٹ سے بھریں جاتے ہیں اسی لائین سے ہمیں بھی پانی فراہم کیا جاتا ہے مگر حکام کی چشم پوشی اور افسر شاہی کی سرپرستی میں چلنے والے یہ ہائڈرنٹ اور ٹینکر مافیا نے عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ کہانی یہی ختم نہیں ہوتی ستم بالائے ستم یہ کہ شہر کراچی کے ایک بڑے حصے کو پانی فراہم کرنے والا دھابیجی پمپنگ اسٹیشن معمولی لوڈ شیڈنگ برداشت نہیں کر پاتا۔

اور آئے دن پائپ لائن پھٹنے کی نوید سننے کو ملتی ہے جس سے مذکورہ علاقوں کے علاوہ بھی شہر کراچی کا ایک بڑا حصہ متاثر ہو جاتا ہے۔ کچھ دن قبل ایسے ہی پانی کی بندش پر جب مکین علاقہ نے پر امن احتجاج شروع کیا تو متعدد پیاسوں کو حوالات کی ہوا کھانی پڑی۔ روز بروز پانی کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے

مگر حکام بالا اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے اور پیاسوں پر ڈنڈے برسا رہے ہیں۔ اگر یہی حال برقرار رہا تو وہ دن دور نہیں جب کراچی کے عوام پانی کے نہیں خون کے پیاسے بن جائیں گے۔ پانی کی فراہمی کی صورتحال پر متعلقہ اداروں کی خاموشی اس مسئلے کو اس قدر بڑھا دے گی کہ آنے والے دنوں میں یہ مرض ناسور کی شکل اختیار کر جائے گا اور ڈنڈا سہتے سہتے عوام انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوگی۔ آج اخبار میں واٹر بورڈ کی جانب سے ایک خبر پر نظر پڑی جس میں واٹر بورڈ کے انجینئر اور ماہرین نے شہر کراچی کے تمام علاقوں کو پانی فراہم کرنے کے لئے ناغہ سسٹم متعارف کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

افسوس کا مقام ہے ہمارے ماہرین کے عجیب منطق سمجھ سے باہر ہیں بجلی کی قلت پیدا ہو گئی تو لوڈ شیڈنگ کا عذاب، گیس کی کمی کا سامنا ہوا تو گیس کی فراہمی معطل، اب پانی کے ساتھ یہی گھناؤنا طریقہ اختیار کرنا کراچی کے باسیوں پر ایک اور ڈنڈا برسایا جانا ہے۔ کیا ماہرین ان مسائل کا مستقل حل پیش نہیں کرسکتے اور ایسے پلان کیوں تشکیل نہیں دیتے جس سے یہ مسائل جڑ سے ختم ہوں۔ بجلی اور گیس کی پیداوار بڑھانے کے لئے تو اقدامات نہیں کیے گئے البتہ شہر کراچی کے لئے بنائے جانے والے منصوبے پر عمل کیوں نہیں کیا جا رہا؟ کیا ان ماہرین کی رائے اور منصوبے کی کوئی قدر نہیں۔ خدا را کراچی پر رحم کھائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).