نہر


”نصیباں“ تو اس بھینس کو لے جا اور اس کو نہلا دے۔ تیرا باپ کل سے شہر گیا ہے اور کسی نے بھی ان جانوروں کی خبر نہیں لی۔ اور ویسے بھی اس گھر میں تیرے میرے سوا ہے کون جو، ان بے زبانوں کو سنبھال سکے۔ نصیباں نے اپنے موٹی سی چوٹی کو ”پراندے“ میں مقید کرتے ہوئے سر کو گھما کر ماں کی طرف دیکھا۔ وہ اس بات سے بے نیاز باتیں کیے جارہی تھی کہ نصیباں ان باتوں کو سن بھی رہی ہے کہ نہیں۔ نصیباں نے آئینے کے ٹکڑے کو ایک طرف رکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ چارپائی کو اپنی کمر پر اٹھا کر دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ اس نے بھینس کا رسہ کھولا اور اس کو لیے گاؤں کے ساتھ بہتی نہر کی طرف بڑھ گئی۔

نصیباں رشید ے جٹ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اس کو ساری عمر یہ آرزو رہی تھی کہ کاش کوئی میرا بھی بھائی ہوتا۔ ان کا گاؤں ”سرحد“ کے بالکل ساتھ واقع تھا۔ نہر کی دوسری طرف ہندوستان تھا۔ اسے بچپن سے ہی یہی بات بتائی گئی تھی کہ اس نہر کو کسی بھی صورت پار نہیں کرنا۔ نہر کیا تھی ایک دریا تھا۔ نفرتوں اور ہر روز سنی جانے والی سازشوں کی نہر۔ اس نے ہمیشہ یہ دیکھا تھا کہ نہر کے دوسری سمت سکھنیاں انپی لمبی لمبی چوٹیاں کھولے کپڑے دھو رہی ہوتی تھیں یا پھر سکھ اپنے اپنے مویشیوں کو نہلا رہے ہوتے تھے۔ بچوں اور نوجوانوں کے گروپ نہر میں پہروں نہاتے رہے تھے۔

نصیباں بھینس کو نہر کے کنارے لے کر پہنچی تو بھینس خود بخود نہر میں داخل ہو گئی۔ نصیباں نے جلدی میں اپنی چادر کو اتار کر کنارے پر پھینکا اور بھینس پر سوار ہو گئی۔ بچپن سے اس جوانی تک وہ اپنے گاؤں کی دوسری لڑکیوں کے ہمراہ ہر روز یہاں آتی رہی تھی۔ تیراکی میں تو وہ اپنی عمر کے لڑکوں کو پیچھے چھوڑ جاتی تھی۔

وہ کافی دیر تک بھینس کو نہلاتی رہی۔ اس کے جسم پر پانی پھینک پھینک کر ملتی رہی وہ بھینس کے رسے کو پکڑ کر نہر میں ڈبکیاں لگاتی اسے ایک عجیب سرشاری اورطمانیت محسوس ہو رہی تھی۔ نہر کے دوسری سمت لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ انہیں یہ احساس ہی نہ ہوتا تھا کہ دوسری سمت کیا ہورہا ہے۔ البتہ کچھ فاصلے پر بارڈر سیکورٹی فورس کی ایک پوسٹ تھی۔ جہاں پر تعینات افراد ہر وقت اس سمت نظر رکھتے تھے۔ رات کے وقت تو گشتی پارٹیاں چپے چپے پر پھیل جاتی تھیں۔

نصیباں کچھ گنگنا بھی رہی تھی۔ وہ بھینس کی گردن سے لپٹ گئی۔ بھینس ایک جنھجلاہٹ کا شکار ہوئی تو اس نے اپنی گردن کو جھٹکا دیا۔ نصیباں اس بھینس کا دودھ پی کر جوان ہوئی تھی۔ وہ ایک ”جٹی“ تھی اسے اپنے بازؤں پر بڑا مان تھا۔ بھینس نے دو تین مرتبہ گردن کو جھٹکے دیے اور نصیباں نے قہقہ اڑاتے ہوئے بھینس کو چھوڑدیا۔

اس نے نہر میں ڈبکی لگائی۔ سر باہر نکالا تو کنار ے پر دیکھا کہ اس کی چادر ہوا جھونکے کے ساتھ نہر میں گرنے لگی تھی۔ اس نے کنارے کی طرف چھلانگ لگائی۔ چادر پانی میں نہیں گری تھی بلکہ کنارے پر موجود ایک خود رو جھاڑی اس کے راستے میں رکاوٹ بن گئی تھی۔ نصیباں نے چادر کو اٹھایا اور کنارے پر اُگے ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا۔

وہ جب اس کارروائی کو ختم کرکے واپس پلٹی تو اس کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ بھینس نہر کا درمیان بھی پار کر چکی تھی۔ وہ دوسرے کنارے کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی۔ نصیباں نے بھینس کو آوازیں دیں اسے پکارا مگر وہ دوسری سمت جاچکی تھی۔ نصیباں بہت دیر تک نہر کے کنارے بیٹھی رہی اس کا جی نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ بھینس کے بغیر گھر جائے۔ یہ بھینس ان کے گھر کا ایک فرد تھی۔ اس نے دیکھا کہ نہر کے دوسری طرف تمام سرگرمیاں ختم ہوگئی ہیں۔ لوگ جا چکے ہیں اس کی بھینس کو بھی وہ ساتھ لے گئے تھے۔ وہ ایک تھکن لیے اٹھی اور گھر کی طرف چل دی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔

گھر کے قریب پہنچ کر اس نے خود کو سنبھالا دیا۔ اور آنکھیں پونچھ کر گھر میں داخل ہو گئی۔ ماں میں بھینس کو باڑے میں باندھ آئی ہوں۔ بکریوں کو بھی لے جارہی ہوں ماں نے سر ہلادیا اور کھانا پکانے میں مصروف رہی۔ نصیباں نے بکریوں کو کھولا اور باڑے کی طرف لے کر چل دی۔

عشاء کی اذان کے ساتھ ہی نصیباں نے تیاریاں شروع کردیں۔ اس نے اپنی ایک چادر سنبھال کر سرہانے رکھ لی۔ اپنے باپ کا ایک سوٹ بھی رکھ لیا اور کلہاڑی تو اس کے سرہانے پہلے ہی رہتی تھی۔ جب ہرسو رات کی تاریکی چھا گئی اورجھینگروں کی آوازوں کا شور ہر طرف بکھر گیا اورتو وہ اٹھی۔ اس نے ایک منصوبے کو ترتیب دے رکھا تھا یہ ایک خطرناک منصوبہ تھا۔

اس نے اپنے باپ کا سوٹ پہنا۔ وہ ایک اونچی لمبی جٹی تھی۔ اپنے باپ کی قمیض بھی اس کو اپنے جسم پر تنگ محسوس ہوئی۔ اس نے اپنے بالوں کو لپیٹ کر چادر کو سر پر باندھا اور چہرے کو لپیٹ لیا۔ وہ ایک جوان آدمی لگ رہی تھی۔ اپنے علاقے میں سیکورٹی والوں کا گشت شروع ہو چکا تھا۔ نہر کے کنارے پہنچ کر اس نے اپنے لباس کو سر پر باندھ لیا۔ اور کلہاڑی کو کمر کے ساتھ باندھ کر نہر میں چھلانگ لگا دی۔ وہ اس بات پر بھی شکر ادا کر رہی تھی۔ کہ وہ سیکورٹی فورس کی نظروں میں نہ آئی تھی۔

دوسرے کنارے پر پہنچ کر اس نے اپنا مکمل لباس پہنا اور سامنے نظر آنے والے گاؤں کی طرف چلدی۔ وہ چند قدم ہی چلی ہوگی کہ اسے باتوں کی آواز سنائی دی۔ وہ ایک گشتی پارٹی تھی۔ وہ دبک کر بیٹھ گئی۔ آنے والے اس کی سمت ہی چلے آرہے تھے۔ اس نے خود کو زمین پر لٹا لیا۔ وہ تعداد میں چار پانچ تھے اور پھر وہ نصیباں کے پاس سے گزر گئے وہ شکر ادا کررہی تھی کہ کسی نے اس کو دیکھا نہیں ہے۔ اور پھر خطروں سے بے نیاز گاؤں میں داخل ہو گئی۔ اس کی نظریں کسی باڑے کو تلاش کر رہی تھیں۔ اسے ایک باڑا نطر آیا۔ چھوٹی سی دیوار سے اس نے جھانک کر اندر دیکھا تو ایک چارپائی پر کوئی سو رہا تھا۔

اس نے دیوار پھلانگی اور اندر داخل ہوگئی اور پھر اپنی کلہاڑی اس کی گردن پر رکھ دی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ نصیباں نے اس کو لیٹے رہنے کا حکم دیا۔ وہ ایک ضعیف آدمی تھا۔ چند منٹوں بعدوہ چارپائی پر بندھا پڑا تھا۔ نصیباں نے دیکھا کہ باڑا مویشیوں سے بھرا پڑا ہے اس نے اپنی بھینس کو تلاش کیا۔ مگر وہ اس باڑے میں نہ تھی۔ اس نے دو بھینسوں کے رسے کھولے اور ان کو ایک دوسری کے ساتھ باندھا اور ایک لمبی رسی ان کی گردن کے ساتھ باندھ دی۔

وہ دوبارہ اس نہر کی سمت چلدی۔ اب اس کا سیکورٹی فورس کی نظر میں آجانا یقینی تھا۔ ان باتوں سے ڈر رہی تھی مگر باہمت تھی۔ اس نے آگے آگے چلنا شروع کر دیا۔ بھینسیں بھی اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں۔ نصیباں کی نظریں چہار سو تھیں۔ اس نے ایک صاف راستے کی بجائے کھیت کو منتخب کیا اور نہر کی طرف بڑھتی رہی۔ اور پھر وہ نہر کے کنارے پر پہنچ گئی۔ اس نے پہلے بھینسوں کو نہر میں داخل کیا اور بعد میں خود بھی داخل ہوگئی۔ رسی اس نے ہاتھ میں تھامی ہوئی تھی۔

وہ نہر کے وسط میں پہنچی تو اسے دوسرے کنارے پر کچھ لوگوں کے دوڑنے کی آوازیں محسوس ہو ئیں۔ اس نے نہر کے بہاؤ کی سمت بڑھنا شروع کر دیا۔ ممکن تھا وہ لوگ نہر میں فائر کر دیتے تو دوسری طرف موجود سیکورٹی فورس بھی محتاط ہو جاتی۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے نصیباں بھینسوں کے ہمراہ کسی ایسی جگہ سے نکلتا چاہتی تھی جہاں خطرہ کم ہو۔

وہ تھوڑی دورہی گئی تھی کہ باقاعدہ فائرنگ شروع ہوگئی۔ یہ فائرنگ شدید نوعیت کی تھی۔ وہ سہم گئی تھی۔ مگر ڈر اور خوف اس جٹی کے ارادوں کو متزلزل کبھی بھی نہ کر پائے تھے۔

ایک جگہ دیکھ کر وہ نہر سے باہر نکل آئی بھینسوں کو ساتھ لئے اس نے گاؤں کی طرف ایک طویل چکر کاٹا اور گاؤں پہنچ گئی۔ اس نے باڑے میں جاکر دونوں بھینسیں باندھ دیں۔ کپڑوں کو خشک ہونے کے لئے صحن میں لٹکادیا۔ اور اپنے بستر پر جاکر لیٹ گئی۔ ماں جاگ رہی تھی۔

بیٹی کہاں گئی تھی؟ ماں میں باڑے کی طرف گئی تھی۔ ابا شہر گیا ہے تو ماں میں نے سوچا کہ باڑے کی خبرلے لوں۔ پہلے تو وہی باڑے میں سوتا ہے، آج باڑا خالی ہے۔

ماں کو اپنی بیٹی پر اعتماد اور مان تھا۔ اس نے کروٹ بدلی اور دوبارہ سو گئی۔

دوسرے روز اخبارات اور ریڈیو میں بارڈر پر ہونے والی جھڑپ کا تذکرہ سب سے زیادہ تھا۔ دونوں ملک ایک دوسرے پر جاسوسوں کو سرحد پار کروانے کا الزام لگارہے تھے۔ دفتر خارجہ میں طلبی ہو رہی تھی۔ جبکہ نصیباں جٹی مزے کی نیند سو رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).