فالتو چربی نکلوانے کا بل


اگر وفاقی حکومت کے اعلی حکام مولانا عطا الرحمن کے آٹھ لاکھ روپے کے میڈیکل بل کی ادائیگی کرنے سے انکار نہ کرتے تو ہم جو عوام الناس ہیں، کبھی اس راز سے آگاہ نہ ہوتے کہ مولانا نے اپنی فالتو چربی نکلوائی ہے۔

مولانا عطا الرحمٰن کو کون نہیں جانتا۔ وہ سابق وزیر سیاحت رہے ہیں، اور اس وقت ہمارے محترم سینیٹر ہیں، مولانا مفتی محمود مرحوم و مغفور کے صاحبزادے اور مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی ہیں۔ زبان و بیان پر جو قدرت وہ رکھتے ہیں اس کا ایک معمولی سا اظہار چنددن پہلے انہوں نے سینٹ میں اپنی ایک تقریر کے دوران کیا کہ جب سینٹ چیرمین نے وزیر اعظم کے بارے میں اُن کے بولے گئے ایک لفظ کو ناموزوں کہہ کر کارروائی سے حذف کر دیا تو انہوں نے تُرت سے ایک اور ہم معنی لفظ جَڑ دیا، چیئرمین صاحب بھی بھلا کہاں چُوکنے والے تھے، انہوں نے دوسرا لفظ بھی کارروائی سے خارج کر دیا تو مولانا ایک اور لفظ لے آئے حتٰی کہ بات آٹھ دس الفاظ تک چلتی رہی۔ اُدھر چیئرمین صاحب ایک لفظ حذف کرتے اِدھر مولانا دوسرا لفظ پیش کر دیتے۔ اس طرح چیئرمین صاحب نے جو بات ایک لفظ میں ختم ہو رہی تھی وہ کئی لفظوں میں مکمل کروائی۔

اگرچہ ہمیں یہ بات معلوم نہیں ہے کہ مولانا کی مذکورہ تقریر فالتو چربی نکلوانے کے بعد کی تھی یا مولانا نے فالتو چربی کے ساتھ ہی اس شعلہ بیانی کا مظاہرہ کیا تھا البتہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ہر دو صورتوں میں مولانا کی فالتو چربی کا اس بلاخیزی میں کچھ نہ کچھ کردار ضرور ہے۔ دریں حالات ہماری ملکی سیاست بھی ایک ہنگامہ خیز دور سے گزر رہی ہے، وہ ایسے کہ بڑے مولانا کو ایک طویل عرصے کے بعد پارلیمنٹ سے دور رہنا پڑ گیا ہے، جس کی وجہ سے سالہاسال تک اُن کے زیرِاستعمال رہنے والی کشمیر کمیٹی اور منسٹر اینکلیو میں ایک عالیشان بنگلہ، دونوں بڑے مولانا کی رفاقت سے محروم ہو گئے ہیں۔

ہمیں مولانا کے بل کے مسترد ہونے میں سازش کی بُو آ رہی ہے۔ مناسب تو ہو گا کہ سینٹ چیئرمین اس بات کی صاف شفاف تحقیقات کروائیں کہ مولانا کا فالتو چربی کا شکار ہونا، پھر اُس چربی کو نکلوانا اور اس کے بعد متعلقہ بل کی عدم ادائیگی کسی بڑی سازش کی کڑیاں تو نہیں۔ چونکہ اس طرح کی تحقیقات کوئی اعلی سطحی جے آئی ٹی ہی کر سکتی ہے لہٰزا فوری طور پر ایک جے آئی ٹی تشکیل دی جائے جس کی سربراہی بڑے مولانا کے سپرد کی جائے اور رانا ثنا اللہ صاحب اور محترمہ شیریں مزاری صاحبہ کو بطور رکن نامزد کیا جائے۔

اس جے آئی ٹی میں ڈاکٹر کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کسی نہایت ہی سکہ بند ڈاکٹر کا انتخاب کیا جائے مثلاً ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، ڈاکٹر بابر اعوان یا ڈاکٹر عامر لیاقت علی، مؤخر الذکر دونوں ڈاکٹر صاحبان کا انتخاب ایک پنتھ کئی کاج والی بات ہو گی کہ کمیٹی کو مذہبی، قانونی اور صحافیانہ رہنمائی بھی میسّر رہے گی۔

اس جے آئی ٹی کو اپنا کام اگلے عام انتخابات سے پہلے مکمل کرنے کی ہدایت کی جائے اور اس دوران بڑے مولانا کو وہی سہولیات دی جائیں جو انہیں کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے دوران حاصل تھیں۔ جے آئی ٹی یہ بھی پتہ لگائے کہ مولانا پر فالتو چربی تھی بھی یا دھوکے سے نکال لی گئی ہے۔ اور یہ بھی کہ اب وہ فالتو چربی کس استعمال میں لائی جا رہی ہے۔ کہیں مولانا سے نکلوائی گئی فالتو چربی کا اسرائیل کے اُس جہاز سے کوئی تعلق تو نہیں بنتا کہ جو پاکستان آیا ہی نہیں یا پھر آیا تھا۔ اور یہ بھی کہ اگر فالتو چربی نکلوانے کا بل پاس نہیں کیا جا سکتا تو کیا وہ فالتو چربی دوبارہ مولانا کے تن بدن کا حصہ بن سکتی ہے۔

حکومتی سطح پر جناب وزیر اعظم صاحب کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ فالتو چربی نکلوانے کی سہولت ہر خاص و عام کو مفت میسّر ہو اور ٹی وی پر ایک آگاہی مہم چلائی جائے کہ لوگ اپنی فالتو چربی نکلوا کر سرکار کو عطیہ کر دیں تا کہ اس طرح نکلوائی جانے والی چربی سے ملکی معیشت کی خشک مشینری کو تیل مہیا کیا جاوے اور جب تک ہمارے وزیر اعظم باقی کے ایک صد ممالک کا دورہ کر کے اُن سے ڈالر نہ ملنے کی یقین دہانیاں اکٹھی نہیں کر لیتے، اِسی جام شدہ مشینری کو فالتو چربی سے بنائے گئے تیل سے استعمال کے قابل بنایا جائے۔

اس سلسلے میں کابینہ کے ہونہار ارکان کی تعریف و تحسین نہ کرنا زیادتی ہو گی کہ جنہوں نے عوام کی فالتو چربی نکلوانے کے طِبی طریقوں کے ساتھ ساتھ دوسرے رائج الوقت جدید طریقوں سے بھی خوب خوب استفادہ کیا ہے اور وقتاً فوقتاً مہنگائی کر کے عوام کی فالتو چربی بلکہ براہِ راست تیل ہی نکالنے کا عمل کمال سُرعت کے ساتھ جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).