ہڈیوں سے نمودار ہوتا انتقام


اگست 1990 میں عراقی فوج نے اپنے پڑوسی ملک کویت کی سرزمین پر اپنے قدم رکھے۔ کویت نے تیل کی پیداوار میں اضافہ کرکے کی تیل کی منڈیوں میں اپنے پڑوسیوں اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کی روزی پہ لات مارنے کی کوشش کی تھی۔ کویت کو معلوم نہ تھا (شاید معلوم تھا) کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ کویت کا یہ قدم نہ صرف کویت بلکہ عراق اور دیگر عرب ممالک کی نئی تقدیر لکھنے والا تھا۔ 17,818 مربع کلومیٹر رقبے اور چالیس لاکھ سے زائد آبادی والے ملک کویت پر عراق نے دو اگست 1990 میں قبضہ کرلیا۔

بات صرف اتنی سی نہیں ہے، عراق میں اس وقت کے امریکی سفیر اپریل گلیسپی نے صدام حسین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ امریکہ کبھی بھی عربوں کے درمیان جنگ نہیں چاہے گا خاص کر عراق کے خلاف جنگ امریکی مفادات کے خلاف ہوگی۔ عراقی صدر نے سفیر کی اس بات پر یقین کرلیا اور کویت پر چڑھائی کردی تاہم صدام حسین کی حیرت کی انتہا ہوگئی جب امریکی صدر کی جانب سے عراق کے اس فعل کی مذمت کی گئی۔ صدام حسین وہ شخص تھا جس 1968 سے 1979 تک بعث پارٹی کا صدر رہا، اس دوران اس نے عراق میں تعلیم پر خاص توجہ دی۔

سڑکیں، ہسپتال، اور سکول بنائے جو خطے میں سب سے اعلیٰ معیارکی خدمات فراہم کرنے کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ نے بھی صدام حسین کی خدمات کا اعتراف کیا۔ ایسے منظر نامے میں وہ کیا چیز ہوتی ہے جو ایک رہنما کو اپنی ہی سرزمین پر ہیرو سے ولن بنادیتی ہے؟ اس ضمن میں بنیادی طور پر دو ٹولز استعمال ہوتے ہیں ایک ڈسکورس جس کے بارے ایڈورڈ سعید نے کہا اس کے ذریعے محکوم اقوام کی نئی سماجی تشکیل کی جاتی ہے اور جس کی مدد سے نو آبادیاتی عناصر اپنا غلبہ قائم کرتے ہیں۔

اور دوسرا ٹول ہے (پاور) اداراتی نظم و ضبط (جبر) جس کے ذریعے بقول فُوکوسماجی اور اداراتی ڈسکورس کو تبدیل کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔ جب ایک طرف عراق اپنے جارحانہ عزائم کے ذریعے اپنی طاقت کا اظہار کررہا تھاتو دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ اور عرب دنیاکے اس ”ہیرو“ کو ولن بنانے کی کوششٰ بھی تیز تر ہوتی جارہی تھیں۔ 1999 میں ایک امریکی مصنف گاڈنر فاکس کی ایک کامک کتاب جسٹس لیگ آف امیرکا کے نام سے شائع ہوتی ہے۔ جس میں بہت سے سپر ہیروز جیسے کہ : بیٹ مین، سپر مین، ونڈر وومن، دا فلیش، گرین ایرواور دیگر کو مشرقِ وسطی کی ایک ریاست کیرائی میں اترتے دکھایا جاتا ہے جہاں اس لیگ کا رکن آنٹیس مقامی آمر ( جس کی شکل کامک بک میں عین صدام حسین سے ملتی جلتی دکھائی جاتی ہے ) کو مار دیتا ہے۔ ایک طرف بقول ایڈورڈ سعید نو آبادیاتی عناصر مقامی عفریت تخلیق کررہے ہوتے ہیں دوسری طرف طاقت کے نئے مقامی مراکز (آمر یا جمہوریت پسند آمر) اپنی عوامی شبیہہ تخلیق کررہے ہوتے ہیں۔

2000 ء میں عراق سے ایک ناول زبیبتہ واللمک (زیبیبہ اینڈ دی کنگ) کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ اس ناول کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے خالق کا نام ناول پر درج نہیں ہوتا۔ تاہم یہ بات یقین سے کی جاتی رہی ہے کہ اس ناول کے خالق عراقی صدر صدام حسین تھے۔ یہ ناول بنیادی طور پر ایک رومانوی تخلیق تھی۔ ناول کی کہانی صدام حسین کے آبائی علاقے تکریت میں پروان چڑھتی ہے جوقرونِ وسطیٰ کی ایک خوبصورت دوشیزہ زبیبہ کے گرد گھومتی ہے جس کا شوہر (جس کا نام ناول میں درج نہیں اور قیاس کیا جاتا ہے کہ علامتی طور پر یہ امریکہ کی طرف اشارہ تھا) ایک ظالم انسان ہوتا ہے جو اپنی بیوی کو جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے۔

بعد ازاں بادشاہ اس مظلوم عورت کے عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق اس کتاب کی تخلیق کے پیچھے صدام حسین خود تھا تاکہ وہ مقامی سطح پر قوم پرستی اور اپنا امیج ایسا تخلیق کرسکے کہ لوگ اسے محبت کرنا شروع کردیں۔ یہ ناول نے جو عربی زبان میں تخلیق کیا گیا تھا راتوں رات شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گیا بعد ازاں اس پر ڈرامہ بھی تخلیق کیا گیا۔ ان تفاصیل کے بیان کا مقصد یہ بتانا تھا کہ نو آبادیاتی ایجنٹس کس طرح سے مقامی رہنماؤں کو پراووک کرتے ہیں اور ردِ عمل کے طور پر اختراع کیے گئے بیانیوں سے جنگ و جدل کا میدان سجاتے ہیں۔

یہ وہی صدام حسین تھا جسے اس کی عوامی خدمات کے صلہ میں امریکی اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے توصیفی کلمات و اعزازات سے نوازا جاتا رہا لیکن وہی صدام امریکہ کے لیے بعد ازاں ایک عفریت بن گیا (بنا دیا گیا) ۔ ایک سٹیٹس مین کی ان نازک مواقع پر کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ کیا ایک ایسے رہنما کو اپنی توانائیاں ایک ان دیکھی جنگ کی دہلیز پر رکھ دینی چاہئیں؟ ایک سٹیٹس مین کا متنی اور کلامی اظہاریہ جذبات سے مملو نہیں ہونا چاہیے۔

مجھے یاد ہے کہ نو گیارہ کے بعد یا پلے کے عالمی منظر نامے میں متشکل ہونے والے ہیروز ( جن میں سے اکثر تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ) اپنے غیر حقیقی بیانیوں کی بھینٹ چڑھ گئے، بھلے یہ صدام حسین ہو، کرنل قدافی ہو، حسنی مبارک ہوِ یا کوئی اور عبوری طاقت، سب کے سب ایک غیر مرئی طاقت کے بیانیے کا حصہ بنے اور مقامی سطح پر آبادی کی طرف سے داد و تحسین حاصل کی لیکن تاریخ میں اپنی کم زور بنیادوں کی بنا پر اپنے قدم مضبوط نہ کر سکے۔

میری ذاتی رائے کے مطابق وزیرِ اعظم پاکستان کو امریکی صدر کے ٹویٹس کا جواب ہی نہیں دینا چاہیے تھا۔ سگمنڈ فروئڈ کا مشہور قول ہے کہ ”ہر دبی ہوئی شے کو ایک نہ ایک دن ضرور ابھرنا ہوتا ہے“۔ قلم کی لغزش یا زبان کا پھسلنا، ناموں کا بھول جانا اور اسی قسم کے دیگر واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دبا ہوا مواد باہر نکلنے یا ابھرنے کا موقع تلاش کررہا ہے۔ فروئڈ بیان کرتا ہے کہ چھٹی والے دن وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ایک نوجوان استاد سے ملا۔

فروئڈ کی طرح وہ بھی یہودی تھا اور ان دونوں نے یہود دشمنی کے بارے میں گفتگو کی اور یہ کہ یہ یہود مخالف رویہ کیسے یہودیوں کے مستقبل میں رکاوٹیں ڈالتا ہے۔ اس نوجوان استاد نے کافی پرجوش انداز میں گفتگو کی اور کافی ”سخت“ موقف اختیار کیا اور کہا کہ کاش آنے والی نسلیں اس مسئلے کو سلجھا پائیں۔ اس نے اس بات کی وضاحت معروف لاطینی شاعر ورجل کی شاعری سے ڈائیڈ کے ان الفاظ سے کی جو کہ کارتھیج کی ملکہ تھی اور جسے اینئیر سے دست بردار ہونا پڑا۔

اس کے الفاظ تھے : ”کاش کوئی ہماری ہڈیوں سے نمودار ہو اور ہمارا انتقام لے“۔ لیکن یہ سطر بیان کرتے ہوئے نوجوان ایک لفظ ”کوئی“ بیان کرنے سے رہ گیا فروئڈ اس سطر کی درستی کرتا ہے تونوجوان فروئڈ سے اس معمولی سے بھول کی اہمیت کے بارے میں دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بقول اس نوجوان کے لفظ ”کوئی“ کے رہ جانے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ۔ فروئڈ نوجوان سے کہتا ہے کہ جو الفاظ اس کے ذہن میں آرہے ہیں وہ براہِ راست اور تیزی سے ادا کرے۔

نوجوان ایسا ہی کرتا ہے تو الفاظ کی جو کڑی متشکل ہوتی ہے اس سے فروئڈ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ نوجوان نے پسِ لاشعور جس لفظ کو شعور سے محو کیا تھا دراصل اس کا تعلق اس کی محبوبہ سے تھا۔ فروئڈ کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے نوجوان بہت حیران ہوجاتا ہے کہ کیسے فروئڈ نے اس نے لاشعور میں چھپے ہوئے خوف کو تلاش کرلیا۔ تو فروئڈ اسے شعور اور لاشعور سے متعلق تمام تفاصیل سے آگا کرتا ہے۔ اس وقت عالمی منظر نامے پر موجود طاقت کے مراکز کو جوابی کلامیے کے گولے داغنے سے معتوب و مرغوب نہیں کیا جاسکتا۔

ان باشعور اقوام کی سیاسی زندگی ایک بہترین منصوبہ بندی کی مرہونِ منت ہے بھلے اس منصوبہ بندی کا سب سے زیادہ نقصان کم زور ممالک کو ہورہا ہے باوجودیکہ ان طاقت ور ممالک کی منصوبہ بندی اور ٹیسٹنگ پالیسی کی افادیت (ان کے لیے ) سے انکار ممکن نہیں۔ خان صاحب کو ”قوم“ نے منتخب کیا ان کو اپنے اظہاریوں کی بے باکی کی بجائے عملی طور پر اپنی پوزیشن کو واضح کرنا ہوگا دیمک زدہ جڑوں پہ کھڑا ہوا شجر جلد زمیں بوس ہوجاتا ہے۔

سربلندی کی تمنا میں منہ میں توپوں کے دہانے سجا لینے سے ایک سٹیس مین اپنے مرکزی نکتے سے ڈس لوکیٹ ہوجاتا ہے اور بڑے بڑے سیاسی برج سماجی حقیقتوں کی غیر حقیقی تفہیم اور زبان کے غیر محتاط استعمال کی وجہ سے تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن گئے۔ اس سے قبل کہ خان صاحب کے خلاف عالمی سامراج کا گٹھ جوڑ سیاسی اور سماجی بیانیوں میں ان کی تحقیر شروع کردے، خان صاحب کو محتاط ہونا پڑے گا یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہڈیوں سے نمودار ہوتا ہوا انتقام بالآخر ایک گم شدہ تہذیب کی جبین پر لکھے ہوئے دکھ سے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).