قیصر کا حصہ قیصر کو اور پوپ کا پوپ کو



جناب احسن اقبال نے کرتارپور کوریڈور اقدام کو سراہا۔ یہ حمایت سیاسی پختگی کی علامت ہے۔ لگتا ہے اہل سیاست زیادہ بالغ نظر ہو رہے ہیں۔ ذہنی سطح بلند ہو رہی ہے۔ جن ملکوں میں جمہوری سفر کئی سو سال پہلے شروع ہوا، وہ اب اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ ’’اپنے‘‘ اور ’’پرائے‘‘ کے گرداب میں پڑے بغیر سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہہ سکتے ہیں۔

پارٹیوں کے اندر ’’اصلی‘‘ انتخابات ہوتے ہیں۔ ارکان کھل کر پارٹی کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں اور ضرورت پڑے تو پارٹی کے سربراہ کو گلی کا راستہ بھی دکھا دیتے ہیں۔ اسی طرح مخالف پارٹی کے مثبت اقدامات کی تعریف بھی کرتے ہیں۔

ہم ابھی اس سطح پر نہیں پہنچے تاہم غنیمت ہے کہ خارجہ امور کے ضمن میں تمام پارٹیاں، جب بھی ضرورت پڑے، ایک پیج پر ہو جاتی ہیں۔ حال ہی میں صدر ٹرمپ نے جو ہرزہ سرائی کی اور وزیر اعظم پاکستان نے اس کا جو جواب دیا، اس حوالے سے ساری اپوزیشن نے حکومت کا ساتھ دیا۔ اتحاد کا یہ ایک عظیم الشان مظاہرہ تھا۔

اس سے عوام کے حوصلے بلند ہوئے، قوم کا مورال بڑھا۔ یک جہتی کی فضا پروان چڑھی۔ یہی صورت حال اگراندرونی پالیسیوں کے ضمن میں بھی ہوتی تو ہمارا احوال بہت بہتر ہوتا مگر ایک تعصب ہے جو کار فرما ہے۔ مسلم لیگ کی ہر پالیسی کی تحریک انصاف نے مخالفت کرنی ہے۔ تحریک انصاف ہوا میں اُڑ بھی لے تو اپوزیشن یہی کہے گی کہ ٹیڑھا اُڑے ہیں۔ پیپلز پارٹی الگ کیڑے نکالنے بیٹھ جاتی ہے۔

موٹر وے بہرطور میاں نواز شریف کا ایک قابلِ ذکر کارنامہ ہے۔ اس کی تعریف نہ کرنا تُھڑ دلی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اقلیتوں کے حوالے سے بھی نواز شریف حکومت کا رویہ لائقِ تحسین تھا۔ اسی طرح تحریک انصاف کی حکومت منی لانڈرنگ کے سلسلے میں جو کاوشیں کر رہی ہے ان کی تعریف اپوزیشن کو کرنی چاہیے مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ع مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات تو اپوزیشن کی مجبوری یہاں یہ ہے کہ منی لانڈرنگ میں خود اس کے زعما کے اسمائے گرامی در آتے ہیں۔

یوں بھی ’’اپنوں‘‘ کی طرف داری کیے بغیر صد فی صد انصاف کے ساتھ برائی کی مذمت کرنا ہم اہل اسلام کو بطور خاص سکھایا گیا ہے۔ فرمایا کہ ’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کہ یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ یہ اور بات کہ اس بنیادی فریضے سے ہم انفرادی، خاندانی، گروہی اور جماعتی سطح پر اعراض ہی برتتے آئے ہیں اور برت رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کا رویہ دیکھئے۔

ایک ڈاکٹر مریض یا پیرا میڈیکل سٹاف کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔ انصاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صوبے کے اور پھر ملک بھر کے ڈاکٹر، اس ڈاکٹر کی حمایت شروع کردیتے ہیں جو ملزم ہے۔ وکیل ناانصافی کی اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔

کبھی موکلین پر ٹوٹ پڑتے ہیں کبھی منصفوں کو زدوکوب کرنے پر اتر آتے ہیں۔ جن سرکاری اور نیم سرکاری شعبوں میں یونین کا زور ہے وہاں یہ ناانصافی اور گروہ پرستی اور بھی زوروں پر ہے۔ قومی ایئرلائن کی مثال سب کے سامنے ہے۔ جہازوں کی تعداد شرمناک حد تک کم ہے مگر ملازمین گلچھرے اڑائے چلے جا رہے ہیں۔ ڈائون سائزنگ کرنا حکومت کے لیے ناممکن بنایا گیا ہے۔

یونینوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ کسی مجرم کو سزا دینے دیتے ہیں نہ اصلاحات کو بروئے کار لانے دیتے ہیں۔ خاندانوں میں افتراق کی بنیادی وجہ بھی یہی تعصب ہے۔ بیٹا چونکہ اپنا خون ہے اس لیے وہ بے قصور ہے۔ سارا الزام بہو پر ہے۔ بیٹی کا ہر حال میں دفاع کرنا ہے، ملبہ داماد پر ڈالنا ہے، مجرم، مجرم ہے مگر چونکہ اپنی برادری سے ہے اس لیے اس کا ساتھ دینا عزت داری کے لیے لازم ہے۔

غلاف میں لپٹا ہوا، طاق پر دھرا قرآن پاک کیا حکم دیتا ہے ،اس کی مطلق پروا نہیں، تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں۔ بات چیت ختم ہو جاتی ہے۔ مقدمہ بازی میں سالہا سال گزر جاتے ہیں۔ زمینیں بک جاتی ہیں۔ جائیدادیں ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں مگر قاتل کا ہر حال میں ساتھ دینا ہے۔ دوسرے کی زمین ہڑپ کردینے والا چونکہ بیٹے کے سسرال سے تعلق رکھتا ہے یا ذات برادری کے حوالے سے اپنا ہے اس لیے مظلوم کی مخالفت کرنی ہے۔ ظلم کا ساتھ دینا ہے۔ یہ رویہ بنیادی طور پر جاہلی معاشرے کی نشانی ہے۔

مسدس میں حالی نے اسے کمال بلاغت سے بیان کیا ہے وہ بکر اور تغلب کی باہم لڑائی صدی جس میں آدھی انہوں نے گنوائی قبیلوں کی کردی تھی جس نے صفائی تھی اک آگ ہر سو عرب میں لگائی نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ جاہلیت کا یہ رویہ کنبے میں بچوں کی ساری نفسیات کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھال کر رکھ دیتا ہے۔ بچہ جب دیکھتا ہے کہ ماموں یا چچا قصور وار ہے مگر گھر والے اس کی حمایت کر رہے ہیں تو یہ تعصب اور کذب اس کے مستقبل کے رویے کا فیصلہ کر دیتا ہے۔

مغربی معاشرے میں بچے کو پہلا سبق یہ دیا جاتا ہے کہ اس نے جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہنا ہے۔ ماں یا باپ جھوٹ بولیں گے تو بچے ان کے منہ پر صاف کہہ دیں گے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اسی رویہ سے برادری ازم کا خاتمہ ہوا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ امریکہ میں اطالوی یا آئرش کسی کے ذاتی مسئلے کو بنیاد بنا کر احتجاج کر رہے ہوں؟

احسن اقبال صاحب نے کرتارپورکوریڈور کی تعریف کی مگر ایک زیادتی بھی کر گئے۔ سارا کریڈٹ انہوں نے آرمی چیف کو دیا ہے۔ وہ سیاسی حکومت کا کردار ماننے کے لیے تیار نہیں۔ تاہم اپنی حکومت کے ضمن میں ان کا یہ معیار نہیں تھا۔ سابق وزیراعظم سے لے کر مسلم لیگ نون کے ارکان اور منتخب نمایندوں تک، سب نے دہشت گردی کے استیصال کا کریڈٹ ہمیشہ مسلم لیگ (ن) حکومت کو دیا۔

سب جانتے ہیں کہ پہل اس سلسلے میں عساکر نے کی تھی۔ کیا سابق وزیر اعظم نوازشریف نے فوج کو زبانی یا تحریری حکم دیا تھا کہ وزیرستان سے یا دوسرے علاقوں سے دہشت گردوں کے مراکز ختم کردو؟

نوازشریف صاحب نے تو طالبان سے مذاکرات کے لیے جو ٹیم بنائی تھی اس میں ایک کالم نگار ایسے بھی تھے جو ہمیشہ طالبان کے ہرقول، فعل کی غیر مشروط حمایت کرتے رہے۔ کون نہیں جانتا کہ میاں شہبازشریف نے طالبان سے درخواست کی تھی کہ پنجاب کو کچھ نہ کہیں، مسلکی تنظیموں کے ساتھ اتحاد بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔

سفارتی محاذ پر کرتار پور کوریڈور پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ ایک تیر سے کئی شکار ہوئے ہیں۔ اس کا کریڈٹ اگر فوج کو جاتا ہے تو سیاسی حکومت کو بھی دیجئے جو قیصر کا حصہ ہے وہ قیصر کو دیجئے جو پوپ کا حصہ ہے وہ پوپ کو دیجئے۔ سیاسی بالغ نظری کے سفر میں ارتقا تو ہورہا ہے مگر ابھی بہت سی منازل طے کرنی ہیں۔

(بشکریہ روزنامہ 92)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).