جناب وزیر اعظم، کٹے آپ کے لئے دعا گو ہیں


بھینسوں کے نور نظر یعنی فرزند ارجمند عرف عام میں کٹے کہلاتے ہیں۔

تاریخی طور پر یہ مخلوق ہمیشہ سے مظلوم ہی رہی ہے۔

یہ بیچارے پیدائشی بد قسمت ہوتے ہیں۔ حضرت انسان کے برعکس جہاں کٹوں یعنی بیٹوں کی پیدائش پر جشن منائے جاتے ہیں بدھائیاں دی جاتی ہیں۔ بھینسوں کے ہاں ایسے سپوت پیدا ہونے پر ہمیشہ ناگواری سے ناک بھوں چڑھائی جاتی ہے۔

جہاں انسانوں میں اپنے بیٹوں کو فخر سے میرا شیر پتر کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ وہی کسی دوسرے کے اچھی بھلی شکل وصورت کے حامل بچے کو بھی کٹا جیا کہہ کر حقارت سے یاد کیا جاتا ہے۔

ان مظلوموں کو شروع سے ہی بھینس کے تھنوں کا بچا کچھا دودھ اور بھینسوں اور کٹیوں کا بچا ہوا چارہ کھلایا جاتا ہے۔

جہاں کسی بے سرے گلوکار کو کٹے کی طرح رنگنے والا کہہ کر بے زاری کا اظہار کیا جاتا ہے وہی کسی سست الوجود کی تعریف یوں سننے کو ملتی ہے کہ، فلاں سارا دن کٹے کی طرح بیٹھ کر جگالی کرتا رہتا ہے۔

پرانے زمانوں میں کٹوں کی بے وقعتی کا یہ عالم تھا کہ کسان ایک آدھ چھاج یا ایک جوڑی جوتے کے بدلے کٹے کی رسی کسی چمار یا موچی کو پکڑا دیتا تھا۔

ہندوستان پر انگریزی راج کے دوران آدم خور شیروں کے بڑے بڑے مشہور شکاری ہو گزرے ہیں، جن میں جم کاربٹ، کینتھ اینڈرسن اور کرنل جیفری وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی شیر کے شکار کی سنسنی خیز داستانیں ہرگز منظر عام پر نہ آ پاتیں اگر چارے کے طور پر کٹے اپنا سر نہ کٹاتے۔ کیونکہ یہ جملہ حضرات خود اپنی بلی چڑھانے پر قطعاً آمادہ نہ ہوتے۔ کیونکہ اس صورت میں باقی کہانی کٹوں کو لکھنا پڑتی۔

گویا کہ شروع سے ہی کٹوں کو بے کار، اناج کے دشمن اور فضول جان کر ان سے ہمیشہ پیچھا چھڑانے کے جتن کیے جاتے رہے۔

اگر اس تمام ظلم وستم سے کوئی ایک آدھ کٹا بچ نکلتا تو پھر اسے سانڈ بننے کا اعزاز مل جاتا اور وہ پھر چھری تلے آنے سے پہلے اپنی بقیہ زندگی عیش وعشرت میں گزارتا تھا۔بلکہ کچھ زیادہ ہی عیش کر لیتا تھا۔

کٹوں کے لئے یہاں پر نا موافق حالات کو دیکھ کر ہی کچھ سیانے لوگوں نے اپنے کٹے پلنے کے لئے ولایت بھیج دیے تھے، جہاں کی فرحت بخش فضا میں پل کر اب وہ پورے سانڈ بن چکے ہیں۔ اور اب تو واپس آنے سے ہی انکاری ہیں، کیونکہ یہاں کچھ لوگ ان کی طرف دیکھ کر چھریاں لہراتے رہتے ہیں۔

ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان نے اس مظلوم مخلوق کے لئے آواز بلند کر کے بہت نیک کام کیا ہے۔

ہم یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ وزیراعظم نے اس وقت ایک نیا کٹا کھول دیا ہے۔

اگرچہ اس سے پہلے بھی کم از کم پنجاب کی حد تک ایک کٹا پال سکیم شروع کی گئی تھی، لیکن ملکی سطح پر اس طرح کی سکیم کا اعلان پہلی بار ہوا ہے۔ مذاق اڑانے والے مذاق اڑاتے رہیں۔ یہ لوگ کٹوں کی طرح سوچنے سمجھنے کی زحمت کرنے کے لئے ابھی ہرگز تیار نہیں ہوں گے۔ اور اس طرح کے ہر مفید اقدام سے کٹے رہیں گے۔

لیکن ان کو کٹوں کی طرح بلاوجہ اس طرح کے مفید اقدام کی مخالفت پر اڑنا نہیں چاہیے۔

اگر اس طرح کی کسی بھی سکیم پر پوری طرح سے عمل درآمد ہو گیا تو دیہاتی علاقے میں رہنے والے غریب لوگوں کو اس کا فائدہ ہی ہو گا۔

ہم وزیراعظم کی اس سکیم کے ناقد ہر گز نہیں۔ بلکہ اس کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں۔ اور کیونکہ وزیراعظم کی نیت صاف ہے اس لئے اس سکیم کی کامیابی کے لئے پر امید بھی ہیں۔

 وزیراعظم نے بروقت کٹوں کی افزائش اور ان کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لئے اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔

اگرچہ گدھوں کو یہ بات بالکل پسند نہی آئے گی۔ حالانکہ گدھوں کی افزائش کا ایک پروگرام پہلے ہی سے خیبر پختونخواہ میں کامیابی سے جاری ہے۔جو کہ خیبر پختونخواہ کی پہلی صوبائی حکومت نے وہاں شروع کیا تھا۔

اگر گدھے اس طرح کے کسی مفید پروگرام سے فیض یاب ہونا چاہیں تو وہ خیبر پختونخواہ جا سکتے ہیں۔ لیکن گدھے بھی نرے گدھے نہیں۔ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ وہاں سے چینی انہیں ہانک کر چین لے جائیں گے اور وہاں ان کی کھال کھینچ لیں گے۔ اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی ادھر ہی ڈھینچوں ڈھینچوں کرنا مناسب رہے گا۔

ویسے گدھوں کو بھی اس حکومت سے بھلائی کی ہی امید رکھنی چاہیے۔ اور بدخواہوں کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے اگلی بار ان کے لئے بھی کوئی مراعاتی پیکیج آ جائے۔

 اگر کٹوں کی افزائش کے پروگرام کا یہ بروقت اعلان نہ کیا جاتا تو ایک تو کٹے نرے کٹے ہی رہتے اور دوسرا کل کو کٹوں کے حقوق کی بحالی کے لئے کوئی ناہنجار این جی او یا “انجمن تحفظ حقوق کٹاں” جیسی کوئی شرارت پسند تنظیم کوئی بھی بھونڈا اقدام کر کے اس کار خیر کی مالا اپنے گلے میں ڈال سکتی تھی۔

فی الحال تو ملک بھر کے کٹے وزیراعظم کی اس نیک دلی کے لئے کان اٹھا کر اور دم ہلا ہلا کر دعا گو ہیں، کیونکہ انہیں بھی امید ہو چلی ہے کہ چھری تلے آنے سے پہلے کچھ دنوں کے لئے ہی سہی، انہیں بھی سانڈ بننے کا موقع ضرور ملے گا۔

جناب وزیراعظم اس ملک کے کٹے ہمیشہ آپ کو دعائیں دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).