شعبہ آثار قدیمہ اور مقامی زبانیں



آثار قدیمہ سے متعلق سائنسی علوم برصغیر میں نئی فیلڈ ہے نئی اس لئے کہ ماضی قریب میں تدریسی اور سماجی شعبوں میں شامل کردی گئی ہے، جب کے پچھلی صدی سے محققین اور ماہرین آثار قدیمہ اس پر تحقیقات کر رہے ہیں اور مختلف وضاحتیں بھی پیش کرچکے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم سائنس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ماضی میں گلیلیو، نیوٹن، میری کیوری، ٹیسلا، ایڈیسن، پاسکل، لوس ڈی بروغلی، برٹرنڈ رسل وغیرہ اپنی نظریات، ایجادات اور سائنسی معلومات عام کرنے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں اور ان سب کی کوشش رہی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک معلومات پہنچے تاکہ جتنا زیادہ ہوسکے لوگ سائنس سے مستفید ہوں دوسری طرف سائنس اور سائنسدانوں پر لکھنے والوں کی کوشش رہی ہے کہ سائنسی معلومات کو سہل انداز میں عام آدمی تک پہنچایا جاسکے۔
سائنسی علوم کو سائنسدانوں سے عام لوگوں تک منتقل کرنا ہی حقیقی معنوں میں علم کہلاتا ہے۔ سائنسدان یا عام لکھاری اپنا علم قارئین تک منتقل کرنے کے لئے مختلف ذرائع بروئے کار لاتے ہیں جیسے پرنٹ میڈیا جیسے اخبار، کتاب اور رسالے اور اس کے ساتھ الیکٹرونک میڈیا جیسے ٹی وی، ریڈیو اور سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم ہے اور ان کے ساتھ ساتھ لیکچرز، نمائش، سیاحت اور کانفرنسز وغیرہ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ دنیا میں سائنس کو فروغ دیا جارہا تاکہ سائنس کی افادیت کو بروئے کار لایا جاسکے۔
آثار قدیمہ کے علم کو مقبول بنانے کی بھی وضاحت یہی ہے کہ لوگ اس سے بھی مستفید ہوسکیں۔ شعبہ آثارقدیمہ سماجی سائنس کا ایک شاخ ہے اور اس شعبے کا مقبول ہونا درحقیقت سائنس کی مقبولیت ہے۔
اس تحریر میں سائنس کی مقبولیت پر تفصیلی بحث ممکن نہیں اس تحریر میں فقط پاکستانی شعبہ آثار قدیمہ کو مقبول بنانے میں مقامی زبانوں کے کردار پر غور کیا گیا ہے۔ قارئین کے علم میں لانا ضروری ہے کہ پاکستانی شعبہ آثار قدیمہ عام کیسے ہوئی؟ اس کو فروغ دینے والے کون تھے؟ ماہرین آثار قدیمہ، تاریخدان اور محققین کون تھے؟ ان تمام سوالات کا جوابات دیتے ہوئے سندھی زبان میں اس علم کو عام کرنے میں اپنی رائے رکھوں گا۔
پاکستانی شعبہ آثار قدیمہ کو عام کرنے میں پہلا قدم انگریز آثار قدیمہ کے ماہرین نے لیا جن میں سر جان مارشل اور خاص کر سر مارٹیمر ویلر کا نام سرفہرست ہیں مگر ہند و پاک کے کچھ دانشورسرجان مارشل کے کام کو پاپولائریزشن(مقبولیت) کے فریم ورک میں نہیں دیکھتے اُن کے خیال میں سرجان مارشل کی پذیرائی مقامی لوگوں کے لئے نہیں تھی(نوٹ: اس کے برعکس سر جان مارشل نے ہند و پاک کی قدیم تاریخ پر بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں جن میں کچھ گائیڈ بھی شامل ہیں )۔

Archaeologist Sir Mortimer Wheeler, May 4th 1962

مقامی آثار قدیمہ کو عام کرنے میں سر مارٹیمر ویلر کا کردار اہم رہا ہے۔ ویلر صاحب کی تمام تر کامیابیوں سے بڑی کامیابی مقامی لوگوں میں آثار قدیمہ کی تعلیمات عام کرنے کے سلسلے میں کام کرتے رہے اور کافی حدتک اس میں کامیاب بھی رہے اور اس کے عوض انہیں ”فادرآگ آرکیالوجی(آثآرقدیمہ)“ کہا جاتاہے۔ ویلر صاحب کی تاریخی کاموں سے ایک کام یہ ہے کہ انہوں نے سنہ 1940 اور 1950 کے دوران ٹیکسلا(واقع پنجاب) اور موہن جو دڑو(واقع لاڑکانہ سندھ) کی کہدائی میں مقامی شعبہ آثار قدیمہ سے وابسtہ لوگوں کو عملی آثار قدیمہ(فیلڈآرکیالوجی)کی تعلیم دی اور اِن ہی کے قائم کردہ ٹریننگ اسکول سے پاکستان کے مشہور ماہر آثار قدیمہ، تاریخدان اور محقق احمد حسن دانی اور ہندوستان کے مشہور ماہر آثار قدیمہ بی۔ بی لال اور ایچ۔ ڈی سنکالیا جیسے نامور لوگ باقاعدہ ماہر آثار قدیمہ بن گئے اور دلچسپ امریہ ہے کہ ویلرکے بعد ان کے شاگردوں نے ان کے کام کی پیروی کی احمدحسن دانی پاکستان میں اور سنکالیا ہندوستان میں شعبہ آثارقدیمہ کے حوالے سے کام کرتے رہے اور دونوں نے اپنے استاد کے پرمپرا کو نہیں چھوڑا۔
اسی موضوع پربات کرتے ہوئے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ آثارقدیمہ کے پروفیسر ڈاکٹر رفیع اللہ خان بتاتے ہیں کے احمدحسن دانی اورسنکالیاکے اپروچ میں بہت بڑا فرق ہے سنکالیا انگریزی کے ساتھ ساتھ مقامی زبانوں کو بھی ترجیع دیتے تھے ہندوستان کے مختلف مقامی زبانوں کی مدد سے لوگوں کو شعبہ آثار قدیمہ سے جوڑے رکھا جبکہ دانی صاحب نے پاکستان کے امیر اور پڑھے لکھے طبقے تک خود کو محدود رکھا دانی صاحب کا تمام تر کام انگریزی زبان میں ہے مقامی زبانوں میں دانی صاحب کا لکھا ہوا کچھ بھی نہیں ( احمد حسن دانی کے بارے میں جاننے کے لئے دیکھیں ”جرنل آف ایشین سولائیزیشن جولائی 2015 صفحہ نمبر 107 سے 130 تک)۔ پاکستانی آثار قدیمہ کو عام کرنے میں بہت سے ماہرین آثار قدیمہ، تاریخ دان، ادیب اور دانشوروں نے حصہ لیا مقامی دانشور تقسیم سے قبل اس پر کام کررہے تھے شروعاتی دور میں اخبار اور میگزین ذریعہ تھے علم کو عام کرنے کا اور مقامی دانشوروں نے اس سے بھرپور فائدہ لیا اور اس زمانے میں آثارقدیمہ کے لئے تاریخدان اور ادیب لکھتے رہے۔
تعلیم کا بنادی نظریہ ہے کہ ”بچے کو اس زبان میں تعلیم دی جائے جو بچے کی نیم شعوری(مادری)زبان ہے“ اسی طرح شعبہ آثار قدیمہ کی تعلیمات کو مقامی زبان میں عام کیا جائے تاکہ آسانی سے سمجھا جاسکے۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ آثار قدیمہ کے استاد پروفیسر ڈاکٹر رفیع اللہ خان شعبہ آثار قدیمہ کو مقامی زبان میں پیش کرنے کو ”ورنیکیولرائزیشن آف پاکستانی آرکیالاجی“ کہتے ہیں پروفیسر کے مطابق آج کے زمانے میں آثار قدیمہ کی تعلیمات کو عام کرنا بے حد ضروری ہے اس طرح سے عام لوگ اس شعبے سے شناسہ ہوسکیں گے۔
لوگوں میں شعبہ آثار قدیمہ کا تاثر جو ابھی تک درست نہیں اس تاثر کو اچھا بنایا جاسکتا ہے اور اس سے سیاسی اور معاشی حالات میں بہتری لائی جاسکتی ہے شعبہ آثار قدیمہ کے طفیل سیاحت کوفروغ دی جاسکتی ہے۔ آثار قدیمہ کی تعلیمات مقامی زبان میں عام کرنے سے مقامی لوگوں کا شعبہ آثار قدیمہ کے متعلق قائم غلط سوچ کو کافی حد تک درست کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین اور دانشوروں کو آثار قدیمہ کی تعلیمات کو مقامی زبانوں میں عام کرتے ہوئے اس امر کا خیال رکھنا ہوگا جس طرح انگریزی زبان کے اصولوں کا خیال رکھا جاتا ہے اسی طرح مقامی زبانوں کے کچھ اصول ہیں ان کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے وگرنہ علم کا مفہوم ہی مختلف ہوجائے گا اور یہ علمی نقصان کا باعث ہوگا ماہرین کو مقامی زبانوں پر مکمل عبور ہونا چاہیے تاکہ بات آسانی سے لوگوں کے سمجھ میں آجائے۔ قارعین کے علم میں یہ بات لانا ضروری ہے کے انگریز سامراج کے بعد دنیا کے مختلف دانشوروں نے انگریزی پر شدید تنقید کی اور بڑے پیمانے پر مقامی زبانوں کو فروغ دینے میں بڑی جدوجہد کی اور افریقہ میں ایسی سوچ رکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
پاکستان کی مقامی زبانیں اردو، سندھی، بلوچی، پنجابی اور سرائیکی وغیرہ میں شعبہ آثار قدیمہ پر بہت کم لکھا گیا ہے باقی زبانوں کے مقابلے میں اردو اور سندھی میں تھوڑا بہت مواد موجود ہے پنجابی زبان میں ایک دو کتابیں ملتی ہیں جہاں تک سندھی زبان کا تعلق ہے تو محقیقین، تاریخدان اور دانشوروں کی کرم نوازی ہے کہ سندھی زبان میں آثار قدیمہ کے متعلق کچھ کتابیں اور مواد موجود ہے جس میں کتابیں، ناول، ڈرامے اور شاعری شامل ہے۔ سندھ اور پاکستان کی آثار قدیمہ کی تعلیمات کو عام کرنے میں سندھی میڈیا کا کردار اہم رہا ہے سندھی صحافت شروع سے ہی آثار قدیمہ کو اہمیت دیتی رہی ہے اس بات کی تصدیق تقسیم سے پہلے کے سندھی اخبار اور رسالوں سے کی جاسکتی ہے۔ سندھ میں ثقافتی ورثہ کی مقبولیت سندھی ماہرین کا قابل ستائش عمل ہے۔
سندھ میں شعبہ تعلیم، شعبہ ثقافت و سیاحت، سندھ انڈورمینٹ فنڈ اور دوسرے ادارے آثار قدیمہ کی تعلیمات عام کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں خاص طور پر سندھی میڈیا کی کوششوں کو سراہنا چاہیے۔ پاکستان میں آثار قدیمہ کی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے ابھی بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اس کام کے لئے ماہرین آثار قدیمہ کو قومی میڈیا کی مدد سے تاریخ اور ثقافت کی تشہیر اور ترویج کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں تمام تر سرکاری اداروں سے مدد لینی چاہیے۔

مترجم: جہاں زیب کلمتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).