گلگت بلتستان کی سیاست… لوٹاازم عروج پر


ما شا اللہ سے وطن عزیز پاکستان میں عام انتخابات سے پہلے ہی پتہ چلتا ہے کہ اب کے بار مسند اقتدار پہ کون براجمان ہوگا۔ کیونکہ ہماری ملکی سیاست پر مٹھی بھر لوگوں کی اجارہ داری ہے۔ اور ہمارا سیاسی شعور اس قدر کم ہے کہ ہم الیکشن کے موقع پر نسلی، علاقائی، مذہبی اور لسانی تعصبیت کا شکار ہو کر بڑے بڑے نعروں کے ساتھ کسی ایک پارٹی کو اپنے اپنے قیمتی ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں اور اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں مزے اڑانے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔

پانچ سال کے بعد پھر اس سابقہ صاحب اقتدار پارٹی کو برا بھلا کہنے کے ساتھ ساتھ کسی دوسری سیاسی پارٹی کے پیچھے گدھوں کی طرح پڑ جاتے ہیں۔ ملک کے باقی جگہوں کی طرح گلگت بلتستان کے عوام اور سیاستدانوں کو بھی چڑھتے سورج کی پوجا کرنے کی اچھی طرح عادت ہیں۔ گلگت بلتستان کے یہ گرگٹ طبیعت سیاستدانوں کو بدلتے موسم کے مطابق رنگ بدلنا ملک کے باقی سیاستدانوں کے نسبت زیادہ آسان ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں عام انتخابات وفاق میں عام انتخابات کے 2 سال بعد ہوتا ہے۔

جیسے ہی وفاق میں کسی پارٹی کی حکومت آتی ہے گلگت بلتستان کے یہ گرگٹ طبیعت سیاست دان اپنے سیاسی رنگ بدلنے میں ذرا سا بھی دیر نہیں ہونے دیتے۔ حال ہی مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والا سیاسی نمائندہ راجہ اعظم خان اماچہ نے مسلم لیگ ن کے وفاق میں حکومت کے خاتمہ کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت پر ایک قریبی دوست کی طرف سے ملنے والے لمبے چوڑے مبارک باد کے مسیج پڑھنے کے بعد یہ کالم لکھنے پر مجبور ہوا۔ سوچ رہا ہوں کہ ہم کس قدر سادہ لوح عوام ہیں کہ ان لوٹا سیاستدانوں سے طرح طرح کی امیدیں لگا کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ صرف راجہ اعظم خان کی بات نہیں ہے گلگت بلتستان کی ساست کا جب بغور سے مطالعہ کریں، معلوم ہوتا ہے کہ روندو سے راجہ ناصر عبداللہ، سکردو حلقہ نمبر دو سے شیخ نثار حسین سرباز، کاچو امتیاز، حلقہ ون سے شہزاد آغا، کھرمنگ سے امجد زیدی کے علاوہ بہت بڑی لسٹ موجود ہے جو کہ لوٹاازم کے شکار ہے

جب یہ لوٹے اقتدار میں آتے ہیں تو ہر طرف کرپشن، لوگوں کا حق مارنا، اقربا پروری غرضیکہ ہر قسم کے معاشرتی برائی عام ہو جاتی ہے۔ پارٹی بدلنے کے بعد یہ لوگ کروڑوں روپے رشوت دے کر صاحب اقتدار پارٹی کے ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں پھر الیکشن میں کروڑوں روپے خرچ کر کے یہ لوگ بہ آسانی مسند اقتدار خرید لیتے ہیں یوں ایک جاہل، ان پڑھ، کرپٹ اور راشی شخص پورے پانچ سال کے لئے پوری قوم کے مقدر کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اج کل گلگت بلتستان میں غریب در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ہزاروں لوگ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں بعض گھروں میں تین وقت کا کھانا تک بڑی مشکل سے ملتا ہے سرکاری ہسپتالوں کا یہ عالم ہے یہاں سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے سینکڑوں قیمتی جانوں کا نقصان ہورہا ہے۔

گورنمنٹ سکولوں میں 5، 5 لاکھ رشوت کے ذریعے میرٹ کا جنازہ نکال کر آنے والے استادوں کے ہاتھوں قوم کے لاکھوں معماروں کے مستقبل کے ساتھ گھناؤنا کھیل ہورہا ہے۔ سردیوں کے آتے ہی پورے گلگت بلتستان پر بجلی کی کمی کی وجہ سے اندھیروں کا راج شروع ہوچکا ہے۔ سڑکیوں کے حالت زار پر خود سڑکیں چیخ چیخ کے فریاد کررہی ہے خدارا مجھ پہ رحم کریں لکین کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے اعلٰی تعیلم یافتہ نوجوان اپنی زندگی سے بے زار ہے۔

گورنمنٹ اداروں میں گورنمنٹ کی سیٹوں کی قیمت مقرر ہے جو کہ غریب تعلیم یافتہ نوجوانوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ پڑھے لکھے نوجواں طبقہ جو ملک کے اعلٰی درسگاہوں سے فارغ الحتصیل ہی کیوں نہ ہو رشوت اور سفارش کے بنا اچھی جاب نہ ملنے کی وجہ سے ذہنی اذیت کا شکار ہے۔ غربت اور تنگدستی کا شکار نوجوان طبقہ معمولی سی اجرت پہ دس دس گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہے۔ ایسے حالات سے تنگ نوجوان طبقہ اپنی ذہنی دباٶ کو کم کرنے کے لیے نشے جیسے موزی مرض کا سہارا لیتے ہیں یہی وجہ ہے پورا بلتستان نشے کے دلدل بری طرح پھنس چکا ہے ایک با اثر شخص پورے بلتستان میں شراب، چرس، ہیرون، افیون اور دیگر نشہ آور اشیاء کھلے عام فروخت کر رہا ہے۔ ایک شخص کے آگے قانون اور قانوں نافذ کرنے والے اداروں کی اس قدر بے بسی اور مجرمانہ خاموشی سمجھ سے باہر ہے۔

حالیہ دنوں میں ایک خفیہ ذریعے سے معلوم ہوا کہ سکردو کا وہی با اثر شخص ملک کے تمام تر شہروں میں مقیم بلتستانیوں کو منشیات سپلائی کر رہا ہے۔ اور باقاعدہ طور پر ٹائم پر منشیات پہنچانے کا بندوبست بھی احسن طریقے سے کھلے عام نبھا رہے ہیں۔ اس بات کا بھی سراغ مل گیا کہ سکردو میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کا بھی ایک مخصوص حصہ ان منشیات کے پیسوں میں مختص ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے منتخب نمائندوں کے زیر سایہ معاشرے میں ہر قسم کی برائی کھلے عام ہورہا ہے۔

اور حکومتی کارندے اپنے مفاد کے پیچھے، شیخ و ملا اپنی اپنی توند بڑھانے کی چکر میں، اہل علم طبقہ قلم فروشی میں اور غریب عوام نفسا نفسی کے عالم میں دو وقت کی روٹی حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ صد حیف! کس قدر اچھی بات تھی کہ ہمارا سیاستدان قوم کے بارے میں سوچتا، قوم کے معماروں کے مستقبل کے بارے میں سوچتا، پورے بلتستان میں کینسر کی طرح پھیلتے ہوئے نشے کی بیماری سے اس غریب قوم کو بچانے کی کوشش کرتا۔

ساتھ ہی علماء کرام سے بھی گزارش ہے کہ گلگت بلتستان کی سرزمیں میں آپ علما دین کو اعلٰی مقام حاصل ہے خدارا اس بے بس اور بے کس قوم کو مزید تباہی و بربادی بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو چاہیے کہ خود پر، اپنے عزیز و اقارب پر، اپنے آنے والے نسلوں پر رحم کریں اور اپنی قوم کو مصیبت و پریشانی سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ورنہ ممکن ہے آنے والا کل ہماری قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔

خدا کریں کہ میرے ارض پاک پر اترے

وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).