مزدورکے مسائل میں اضافہ کرنے کا ذمہ دار کون؟


جب سے موجودہ حکومت نے قیادت سنبھالی ہے لگتا ہے کہ عام آدمی کے مسائل میں قدرے اضافہ ہوا ہے بالخصو ص مزدور کے مسائل مزید بڑھے ہیں۔ اس حوالے سے جب مختلف شعبہ جات کے مزدوروں سے بات چیت کی گئی تو محسوس ہوا کہ ان کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ راقم کو فاطمہ جناح ہسپتال اور شہباز شریف ہسپتال میں ڈیلی ویجز ملازمین سے ملنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ان دو اداروں کے ملازمین گزشتہ چار ماہ میں بغیر تنخواہ کے کتنی مشکل سے گزارہ کر رہے ہیں جبکہ اُن میں سے بیشتر کے گھر بھی کرایہ کے ہیں، بچے زیر تعلیم ہیں اور بنیادی ضروریات زندگی کے لئے اُنہیں روزانہ ایک صبر آزما جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔

جن کا دارومدار ہی اُس قلیل سی تنخواہ پر ہے جو اُنہیں ہر ماہ کے اختتام پر ملنی چاہیے اور وہ اس اُمید پر بغیر چھٹی کے اپنی ڈیوٹی انتہائی ذمہ داری کے ساتھ سر انجام دیتے رہے۔ نہایت دُکھ کی بات یہ ہے کہ ان دونوں ہسپتالوں کی انتظامیہ نے اُنہیں بغیر تنخواہ دیے ملازمت سے نکال دیا۔ اب وہ بارہا مقامی انتظامیہ اور صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے مطالبہ کر چکے ہیں لیکن تاحال وہ نہ صرف تنخواہوں بلکہ ملازمت سے بھی محروم ہیں اور عذر یہ تراشا جا رہا ہے کہ بجٹ نہیں ہے۔

قارئین مزدوروں کے ایک اور شعبے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا وہ ہے ملک میں مختلف اداروں اور غیر سرکاری عمارتوں اور پلازوں میں سیکیورٹی فراہم کرنے والے اداروں اور اُن میں تعنیات سیکیورٹی گارڈز کی۔ جن کے حالات جاننے کے بعد انکشاف ہوا کہ یہ طبقہ بھی نہایت قلیل اُجرت پر 12 گھنٹے کام کر رہا ہے اوران میں بھی کچھ سیکیورٹی کمپنیاں کئی کئی ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کر رہی۔ مندرجہ بالا جن اداروں کا ذکر کیا جا چکا ہے اُن کے سیکیورٹی گارڈز کی بھی صورتحال بالکل ویسی ہی ہے۔

اُنہیں چھٹی کرنے کی اجازت نہیں اور بلاتعطیل پورا مہینہ کام کرنا پڑتا ہے اور چھٹی کرنے پر یومیہ اُجرت کاٹ لی جاتی ہے۔ اُن کے لئے حالات ایسے بنا دیے جاتے ہیں کہ وہ بغیر تنخواہ لئے خود ہی ملازمت چھوڑ کر چلا جائے یا چلی جائے۔ یہ پرائیویٹ کمپنیاں صحیح معنوں میں لیبر قوانین کی دھجیاں اڑا رہی ہیں کیونکہ نہ تو وہ کم از کم اُجرت کے مطابق اپنے ملازموں کو تنخواہیں دے رہی ہیں۔ نہ تو وہ 8 گھنٹے کام کرنے کے اُصول پر عمل پیرا ہیں او ر نہ ہفتہ وار چھٹی کے قانون پر عملدرآمد کر رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں ان اداروں کے مزدوروں کی کیا حالت ہو گی اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ہر وقت اُن کے سر وں پر ملازمت ختم ہونے کی جو تلوار لٹکتی رہتی ہے وہ اُن کی فرسٹریشن میں اضافہ کے لئے یقینا کافی ہے۔

یہ صورتحال صرف دو اداروں کی ہی نہیں بلکہ کم و بیش سرکار ی و غیر سرکاری ہرادارے میں پرائیویٹ طور یا ٹھیکے پر کام کرنے والے تمام مزدوروں کی ہے۔ درجہ چہارم کے ملازمین ان اداروں میں خاصی مشکلات کا شکار ہیں۔ ٹھیکیداروں نے اپنی سہولت کے مطابق قواعد وضوابط بنائے ہوئے ہیں او ر کوئی اُنہیں پوچھنے والا نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک ورکر کو جو کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں ملازمت کررہا ہے کیا اُس ادارے کی انتظامیہ نہیں جانتی کہ وہ اُس کا استحصال کیسے کر رہی ہے۔

اور ایسا وہ کیوں کر رہی ہے اس کا جواب ہم سب کے پاس ہے کہ اس حوالے سے جو قوانین بنے ہیں، پہلی بات تو وہ کمزور ہیں، دوسرے اُن پر عملدرآمد نہیں ہو تا اور تیسرے اُس کا مدعی کون بنے گا کیونکہ مزدور میں تو اتنی سکت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے جائز حق کے لئے بھی آواز بلند کرسکے۔ کیونکہ اُن کے پاس ایسی مثالیں اور مشاہدے موجود ہیں کہ جس کسی نے بھی اس کے خلاف آواز بلند کی ہے اُس کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ اور اگر وہ لیبر کورٹ میں گیا تو وہاں طویل انتظار میں اُس کی ہمت جواب دے گئی۔

اس صورتحال کا ذمہ دارکون ہے؟ کیا موجودہ حکومت اس کی ذمہ دارہے یا سابق حکومت۔ کیا سیاسی جماعتیں ہیں جو مزدوروں کے حقوق کا نعرہ تو لگاتی ہیں لیکن اُن کے لئے کرتی کچھ نہیں۔ حتیٰ کہ وہ جماعتیں جو صرف مزدوروں کی ہی جماعتیں سمجھی جاتی تھیں اُنہوں نے بھی اپنے اغراض و مقاصد کو تبدیل کر لیا ہے۔ مزدور ہر حکومت سے بہتری کی اُمید رکھتی رہی ہیں لیکن ہر حکومت سے اُنہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اُنہی حکومتوں نے اُنہیں ٹھیکیداری نظام کی طرف دھکیل دیا اور نجکاری کر کے اُن کی مزدور قوت کو توڑ دیا گیا۔ مزدوروں کا تحفظ کرنے والی مزدور جدوجہد کو کچل دیا گیا اور تاحال جو مزدور تحریکیں موجود ہیں اُن کی سرگرمیوں کو محدود کر دیا گیا۔ اب مزدوروں کے لئے عالمی دن تو منایا جاتا ہے لیکن ملک کے مزدور کی کسمپرسی کو دُور نہیں کیا جاتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2