سردار خالد ابراہیم مرحوم کے نام ایک خط


محترم خالد ابراہیم صاحب!

آپ کے عرصہِ حیات کے دوران آپ سے ملاقات نہ ہو سکنا میرے لیے کسی بد بختی سے کم نہیں۔ مجھے دکھ و عار کے ساتھ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ مجھے آپ سے متعارف بھی آپکی بے وقت موت نے ہی کروایا کہ جب سوشل میڈیا پر آپ پر برین ہیمریج اٹیک کی خبر دعا کی اپیل کے ساتھ جنگل میں آگ کی طرح پھیل رہی تھی۔ میرے احباب میں شامل سبھی کشمیری آپ کی جلد صحت یابی کی دعائیہ پوسٹس شیئر کر رہے تھے اور میں ان دنوں اپنے تعلیمی و تحقیقی دورے پر برطانیہ گئی ہوئی تھی۔ میرا تحقیقی مقالہ چونکہ علمِ بشریات کی روشنی میں آزاد کشمیر کے لوگوں کی سیاسی و قومی شناخت کے حوالے سے ہے لہذا ان پوسٹس نے آپ کے بارے میں مفصل معلومات لینے پر مجھے اکسایا۔ یوں اتنا تومجھے معلوم ہی تھا کہ آپ بانیِ آزاد کشمیر مرحوم سردار ابراہیم خان صاحب کے فرزند ہیں مگر میری لاپرواہی، جہالت یا بد بختی، جو بھی کہیے اس کے علاوہ میں آپ کی شخصیت اور سیاسی خدمات سے قطعی لاعلم تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں نے اپنی زندگی کا نو سال پر محیط ایک لمبا عرصہ لاہور میں بِتایا سو میرا حلقہِ احباب اور سماجی دلچسپیاں بھی زیادہ تر لاہور ہی کی ادبی و سماجی سرگرمیوں تک محدود رہیں۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے جو کہ تحقیقی نقطہِ نظر سے خاصی دلچسپ ہے کہ آزاد کشمیر میں جس گھرانے سے میرا تعلق ہے اس کا سیاسی تعلق نون لیگ سے ہے لہذا نون لیگ کے ذمہ داران اور کارکنان کا ہمارے گھر میں اکثر ذکر رہتا ہے اور یہ بات تحقیقی اعتبار سے اہمیت کی حامل اس لیے ہے کہ کس طرح گھر اور خاندان ایک بنیادی سماجی ادارے کے طور پر اس خاندان کے افراد کا دائرہ فکر ایک خاص سٹریٹیجک انداز میں متعین کردیتا ہے۔ اور کیسے ہمارا خاندانی پس منظر یا ہمارے ارد گرد روزمرہ کے معمولات ہماری سمجھ۔ سوچ، رویے اور اعمال کو غیر محسوس طریقے سے ایک خاص نہج پر ڈال دیتے ہیں۔

خیر چھوڑیے یہ تو بات ایک علمی بحث کی طرف نکل جائے گئی مجھے آپ سے دل کی باتیں کرنا ہیں نہ کہ نصابی۔ زندگی بھی عجب کرتب دکھاتی ہے بعض دفعہ ہم ہیرے کی کان سے ہو کے گزر جاتے ہیں مگر ہیرا نہیں دیکھ پاتے۔ اپنے تحقیقی دورے کے دوران جب میں راولاکوٹ اسی سال جاڑے کے دنوں میں اپنا کام کرنے گئی تھی۔ فروری کی ایک دوپہر جب کہساروں پہ برف گِر رہی تھی، میں کچھ مقامی لوگوں کے ہمراہ کوٹ متے خان پہنچی اس برف پوش چوٹی پرعین آپکے آبائی گھر کے عقب میں کھڑے ہو کرمیں نے سفید چمکدار شال میں لپٹی وادی ِ پرل کی تصاویر کھنچھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے پوچھا تھا اب اس گھر میں کوئی رہتا ہے؟ میرا جی ہے ہم ایک بار اس کے اندر سے ہو آئیں۔ ۔ ۔

جواب میں ساتھیوں نے بتایا تھا کہ شاید اب یہاں صرف ملازمین رہتے ہوں ورنہ باقی لوگ یا تو اسلام آباد رہتے ہیں یا شہر میں۔ کبھی کبھار آنا جانا رہتا ہے بیٹوں کا مگر اس وقت توگھر میں شاید کوئی بھی نہ ہو کہ سردیوں میں تو عام راولاکوٹی بھی پنڈی اسلام آباد شفٹ ہو جاتا ہے۔ یہ جان کر میرا دل بجھ سا گیا تھا،حلانکہ میں آپکو یا آپ کے خاندان کے کسی بھی شخص کو براہِ راست نہیں جانتی تھی سوائے سردار ابراہیم خان صاحب کے جن سے میرا ننھا منا سا ذاتی تعلق یہ ہے کہ اسکول کے دنوں میں جب میں غالباً تیسری یا چوتھی جماعت میں تھی اور وہ ہمارے پونچھ ماڈل سیکنڈری اسکول کے سالانہ جلسے میں بطورِ مہمان خصوصی آئے تھے اور میں نے دیگر بچوں کے ہمراہ اسٹیج پر انگریزی و اردو کے دوزبانی گانے “ویلکم ویلکم” پر پرفارم کرتے ہوۓ ان کو گلدستہ پیش کیا تھا۔ اور نتائج کے اعلان کے بعد ان سے میڈل لینے کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا۔ شادمانی کی چھوٹی چھوٹی گھڑیاں دل و دماغ پر کیسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں نا خالد صاحب کہ فروری 2018 میں جب مجھے معلوم ہوا کہ میں ابراہیم صاحب کے آبائی گھر کے سامنے کھڑی ہوں تو پلک جھپکے میں بیس، بائیس برس پرانی باتیں یادوں کے البم سے نکل کر آنکھوں میں جھلمل جھلمل کرنے لگی تھیں۔ ۔ ۔

گھر کے پاس ہی تھوڑی اونچائی پر موجود ابراہیم صاحب کے مزار پرجانا ہوا تو میں نے دیکھا وہاں ایک کی بجائے دو قبریں تھیں۔ ساتھیوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کے دوسری قبر سردار صاحب کی زوجہ محترمہ کی ہے۔ ساتھیوں نے مزید بتایا کہ سردار صاحب خاصی رومانوی و ادبی طبیعت کے حامل تھے۔ بظاہر دکھنے والی دو الگ قبریں دراصل اندر سے ایک ہیں۔ اوپری تختوں کے نیچے چند زینوں کے بعد ایک ہی قبر ہے جہاں سردار صاحب اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ ابدی نیند سو رہے ہیں اور اپنی آخری آرام گاہ سردار صاحب نے اپنی زندگی ہی میں خود تعمیر کروائی تھی۔ مزار پر دعا کے بعد میں کافی دیر یوںہی مزار کی سفید جالی دار دیوار سے سر ٹکائے کھڑی یہ سوچتی رہی تھی کہ کاش اس گھڑی گھر میں سردار صاحب کا کوئی اپنا، کوئی عزیز موجود ہوتا تو چند لمحے کے لیے میں گھر میں موجود ہر اس شے سے ہمکلام ہو پاتی جو کبھی سردار صاحب کے استعمال میں رہی ہو گی اور اب کے چار نومبر کے بعد سے یہ خواہش مزید بڑھ گئی ہے کہ یقیناً اس گھر میں آپکی بھی انگنت یادیں موجود ہوں گی۔ آپ سے ہوئے سائیبر تعارف نے میرے زہن کے پردے پہ ملال اور نارسائی کے کئی تار چھیڑ رکھے ہیں۔ جن کی شدت جب کبھی مجھے بے چین کرتی ہے تو میں آپ کے چاہنے والوں کو وقت بے وقت میسج کر کے پوچھتی ہوں اگر ان کے پاس وقت ہو تو میں آ پ کے بارے میں ان سے گفتگو کرنا چاہتی ہوں۔ آپ کی سیاسی خدمات نہیں بلکہ آپ کی شخصیت، آپ کے ذاتی تجربات و واقعات کے بارے میں۔ اس حوالے سے میں نے آپکی پرستار سردار نبیلہ سے بھی رابطہ کیا اور آپ کے فرزند سردار اسد سے بھی مگر شاید گہرے صدمے اور دکھ کے ساتھ ساتھ پارٹی کے باقی معاملات میں مصروفیت کے باعث یہ لوگ مجھے ابھی تک وقت نہیں دے پائے۔ اس سلسلے میں میری بے چینی اور بے بسی کو بڑھانے والے سردار جنید بہادر بھی ہیں جنہوں نے آپ کی محبت اور خراجِ تحسین میں ایک شاندار ویڈیو بنائی ہے جس میں آپکی سیاسی تقاریر سے اقتباسات لے کر آپ کے سیاسی نظریے، فکر اور حکمتِ عملی کی نمایئندہ ویڈیوز و تصاویر یکجا کی گئی ہیں۔ اسی میں سردار جنید نے ایسی معلومات بھی فراہم کی ہیں جن سے میرے آپ سے آپ کے عرصہِ حیات میں ملاقات نہ ہو سکنے کے دکھ کو بہت بڑھاوا ملا ہے۔وہ یہ کہ آپ گورنمٹ کالج لاہور میں طالبِ علم رہے ہیں۔ جی سی یونیورسٹی میری بھی تعلیم گاہ ہے اور راویئنز کا آپس میں جو ایک غیر مرئی سا تعلق ہوتا ہے وہ ہر اس لمحے میں اس قدر توانا ہو جاتا ہے جب دو اجنبی توصیفی گفتگو میں یہ آشکار کرتے ہیں کہ وہ اولڈ راویئنز ہیں اس جادوئی لمحے کے بعد اور کچھ ہو نا ہو وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے مزید اجنبی نہیں رہتے۔ ۔ ۔

وقتاً فوقتاً آپکی تصاویر نیوز فیڈ میں، اخبارات کی سرخیوں میں، سوشل میڈیا پروفائلز کی ڈسپلے پکچرز میں دیکھ کر ہر چند میں خود کو بے بس محسوس کرتی ہوں کہ جاڑے کی کسی دوپہر پونچھ کے اندر برف سے ڈھکے کسی مکان میں انگیٹھی سے ہاتھ تاپتے آپ سے کئی موضوعات پر گفتگو ہو سکتی تھی، آپ سے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کو مل سکتا تھا مگر آج ایک ملال کے ساتھ میونخ شہر کی یخ بستگی میں الیکٹرک ہیٹر کے پاس بیٹھ کر یہ خط آپ کے نام تحریر کر رہی ہوں ۔

فیض صاحب کی ایک نظم آپ کی نظر کہ مزید بیانِ داستانِ نارسائی نثر میں ممکن نہیں۔ ۔ ۔

خدا آپ کے درجات بلند فرمائے، آمین!

آرزو

مجھے معجزوں پہ یقیں نہیں مگر آرزو ہے کہ جب قضا

مجھے بزمِ دہر سے لے چلے

تو پھر ایک بار یہ اِذن دے

کہ لحد سے لوٹ کے آ سکوں

تیرے در پہ آ کے صدا کروں

تجھے غم گسار کی ہو طلب تو تیرے حضور میں آ رہوں

یہ نہ ہو تو سوئے رہِ عدم میں پھر ایک بار روانہ ہوں

کومل راجہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).