مرغی تو نے اچھا کیا


28 اگست 2016۔
مرغے میں نے انڈا دیا۔
مرغی تو نے اچھا کیا۔
انڈے کتنے اچھے ہیں۔
پاؤں تیرے ننگے ہیں۔
انڈے بیچو، جو تے لو!

یہ نظم میری نہیں۔ یہ نظم کس کی ہے، مجھے معلوم نہیں، شاید لکھتے ہوئے کچھ الفاظ بھی آگے پیچھے ہو گئے ہیں، لیکن نظم کا مقصد جو مجھے سمجھ آیا وہ یہ ہے کہ مرغی کے انڈے بیچ کر زندگی کی بنیادی سہولیات خریدی جا سکتی ہیں۔

پھر مزید غور کیا تو، رشتوں کا استحصال، انسان کی کجیاں، اس عرصہِ حیات کے لیے انسان کا حد سے بڑھا ہوا لالچ اور دیگر باریکیاں اور کمینگیاں واضح ہونے لگیں، دل بھر آیا اور مرغی کی بے بسی اور مرغے کی خباثت نے بے ساختہ آنکھیں نم کر دیں۔

مرغے، مرغی اور انڈے کی یاد آنے اور آتے ہی رہنے کے پیچھے پنجاب حکومت کا ایک اعلان پو شیدہ ہے۔ شنید ہے کہ سرکاری سکولوں میں طالبات کو چار مرغیوں اور ایک مرغے کا سیٹ دیا جائے گا۔ اس طرح ان کو چھوٹے پیمانے پر مرغبانی کی تربیت بھی ملے گی اور باورچی خانے کے کوڑے کو ٹھکانے لگانے کی تمیز بھی آئے گی۔

کچھ حلقوں نے اس بات کو قابلِ اعتراض جانا اور با قاعدہ خفا ہو گئے کہ صرف طالبات ہی مرغیاں کیوں پالیں؟ کیا لڑکے فقط فاختہ اڑانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ بہت ممکن ہے اس اعتراض کے پیچھے مرغیوں اور مرغے کی معنی خیز تعداد ہو، و اللہ اعلم بالصواب!

ظاہر ہے جن لوگوں نے یہ بات کہی ان کا بھی کوئی نقطۂ نظر تو ہو گا جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یوں بھی حکومتی منصوبوں کے بننے اور پایۂ تکمیل تک پہنچنے کے درمیان جو جو بے قاعدگیاں روا رکھی جاتی ہیں ان کے باعث دل تو میرا بھی یہ ہی کہہ رہا ہے کہ ہو نہ ہو اس میں کسی مرغے خانے والے کے چچا کی رائے لی گئی ہو گی، لیکن دل میں کہیں اب بھی ایک ڈھیٹ سا انسان ہے جو اس اقدام کو نہ صرف سراہ رہا ہے بلکہ اسے طالبات کی تربیت کے لیے اہم بھی سمجھ رہا ہے۔

ڈھیٹ جو ٹھہرا۔

میں سالوں سے اس مسئلے پہ غور کرتی آئی ہوں کہ پاکستانیوں کا ایک اہم مسئلہ کوڑے کو ٹھکانے لگانا ہے۔ راہ چلتے، لوگوں اور راستوں پہ زبانی اور عملی، ہر دو طرح سے کوڑا اچھالنا ہمارے قومی مزاج کا جزوِ لا ینفیک بن چکا ہے۔ حال ہی میں کوڑے کا یہ سیلاب جو گلیوں بازاروں میں، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پہ ٹھاٹھیں مار رہا ہے، سندھ کے وزیرِ اعلی کو نگل چکا ہے۔

بازار میں پان کی پیکیں اور تھوک کے غلفے، خالی لفافے، سگریٹ کے ٹوٹے، کھانے پینے کی اشیا کے خالی ڈبے اور بوتلیں اچھالتے تو ہم ہیں، لیکن خواہش ہماری یہ ہوتی ہے کہ اسے قانون ساز اسمبلی کے ممبر، وزرائے اعلی اور دیگر حکومتی عہدے دار آ کرصاف کریں۔

گھروں میں خواتین ہر قسم کا کوڑا کٹھا کر کے یا تو کوڑے والے کے حوالے کرتی ہیں یا گھر میں جھاڑو بہارو کرنے والی مائی کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جو اپنی جان سے بے زار، زمانے کے دکھوں سے نزار، اسے کسی بھی خالی قطعۂ زمین پہ اچھال، نچنت ہوتی ہے۔ اب یہ دردِ سر ہے اربابِ حل و عقد کا۔

کوڑے کے یہ ڈھیر بہت سے لوگوں کا ذریعۂ معاش بھی ہیں۔ پرانے وقتوں، خیر کچھ زیادہ بھی پرانے نہیں، یہ ہی کوئی 30 سے 40 سال پہلے، خواتین گھر کی ردی اور کباڑ علیحدہ رکھتی تھیں۔ ہر گھر پہ ایک ردی والا آیا کرتا تھا جو خوب جھک جھک جھائیں جھائیں کے بعد یہ ردی خرید کر لے جایا کرتا تھا۔ اس پیسے کو جوڑ کی سگھڑ بیبیاں گھر کی کئی ضروری اشیا خرید لیا کرتی تھیں جو چلتے گھر کے خرچ سے خریدنا ممکن نہ تھا ( آ گئی نا بات، جوتے لینے کی طرف)

اب اکثر خوتین اسے تصنیعِ اوقات جانتے ہوئے، سب کچھ کوڑے دان میں الٹ دیتی ہیں۔ کوڑے کے ڈھیروں پہ مفلوک الحال بچے، ان ہی کارآمد اشیا کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور دیکھنے والوں کو ہمارے معاشرے کی بے حد بھیانک تصویر دکھا رہے ہوتے ہیں۔

نکاسی کی نالیوں اور بدرؤں میں بے دھیانی سے پھینکا جانے والا کوڑا، گٹر بند کرنے، سڑکوں، گلیوں میں پانی کھڑا کرنے اور بار بار سڑکوں کے ٹوٹنے کا موجب بنتا ہے۔ اس کھڑے پانی اور غلاظت سے ہمارے حواس اس بری طرح مارے جاتے ہیں کہ ہم ہر اس شخص کو اپنا نمائندہ چننے پر تیار ہو جاتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح اس مسئلے سے ہماری جان چھڑا دیتا ہے۔

اگر غور کریں تو آج تک جو الٹے سلٹے نمائندے ہم چنتے آئے اور اپنے لیڈروں کے انتخاب میں جو بدحواسیاں ہم سے سر زد ہوئیں ان کی وجہ، سیاسی شعور کی کمی نہیں بلکہ گھریلو خواتین کی کوڑے کو درست طریقے سے ٹھکانے لگانے کے علم سے محرومی ہے اور آج اگر پنجاب حکومت نے اپنی عقل و دانش سے اس راز کا پتا لگا لیا ہے اور یہ گتھی کھلنے کے قریب ہے تو خواہ مخواہ ناراض ہونے کا فائدہ؟

ہم نے عورتوں کو بڑے سے بڑا عہدہ دے کر دیکھ لیا او ر وہ جو کہتے تھے کہ جس معاشرے میں عورتوں کو آزادی نہیں وہ کامیاب نہیں، ان کے منہ پہ تاڑ تاڑ جوتیاں پڑیں۔

اصل بات یہ تھی کہ عورتوں کو گند چھپانا نہیں آتا۔ امیدِ واثق ہے کہ پنجاب حکومت کے اس اقدام اور ایک مرغے چار مرغیوں کے بابرکت پیکج سے، اگلی نسل کوڑے کے اس عذاب سے بچ جائے گی اور اب آنے والے وقتوں میں کوئی وزیرِ اعلیٰ صرف اس وجہ سے مستعفی نہیں ہو گا کہ اس کے عہد میں جگہ جگہ سڑاؤ سڑتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).