فانوس گجر زندہ ہے


ہم لوگوں کا ایک بڑا المیہ ملاحظہ ہو۔

ہم زندگی میں کبھی بھی زندہ لوگوں کو وہ مقام نہیں دیتے جو ان کا فطرتی حق ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے اگر کوئی آسمان سے تارے بھی توڑ کر لائے اور ہماری بہتری کے لئے خود اپنے اوپر بہت سارے ظلم کرکے جینا بھی چھوڑ دے لیکن ہم اس کی زندگی میں اس کی شخصیت کو وہ عزت نہیں دیتے جو دینی چاہیے لیکن جب اس کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں تو پھر ہم اس کی یاد میں زمین و آسمان کی قلابیں ملا دیتے ہیں۔

اب جیسا کہ فانوس گجر تھا۔ مرحوم نے زندگی کا ایک بڑا حصہ عوامی خدمت میں گزارا۔ دن رات محنت کی اور زندگی کی سختیوں کی کبھی بھی پرواہ نہیں کی۔ ایک منکسرالمزاج شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے کبھی بھی خود اپنی بقاء کا نہیں سوچا۔ غربت کی چادر اوڑھے ان کو دوسرے سیاستدانوں کی طرح کبھی بھی کسی اضافی پروٹوکول کی پرواہ نہیں رہی۔ پورے پاکستان میں اس کی اپنی ایک پہچان تھی لیکن لائف سٹائل وہی تھا جو اس خطے کے غریب انسان کا ہے۔

فانوس گجر 1958 میں پیدا ہوئے اور وہ بھی بونیر کے ایک ایسے علاقے میں جہاں زندگی کی بنیادی ضرورتیں بھی ناپید ہیں۔ لڑکپن سے جوانی تک کا عرصہ جو خود اپنے لئے نئی راہیں تلاش کرنے کے لئے ہوتا ہے انہوں نے سیاست کے داؤ پیچ سیکھنے میں گزارا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کی ابتداء کی۔ کہا جاتا ہے کہ ولی خان مرحوم اس کے ساتھ بہت محبت کیا کرتے تھے۔ پارٹی اور ملکی معاملات میں رازونیاز کی تمام باتیں آپ ہی سے ڈسکس کیا کرتے اور آپ کے بارے میں اکثر یہی کہا کرتے کہ فانوس گجر میرے بیٹوں جیسا ہے۔

1988 میں عوامی ورکر پارٹی بنائی اور پھر آخر تک اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ظلم کے خلاف برسرپیکار رہے۔

ہم بچپن سے یہی سنتے آئے تھے کہ مرحوم کے دونوں گردے ناکارہ ہوچکے ہیں اور کڈنی ٹرانسپلانٹ کے ذریعے ایک پرائے گردے سے غریب عوام کے لئے دن رات یہ مشقت برداشت کر رہے ہیں۔ میں نے ایک بار ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ قائد آپ کتنے لاغر ہوگئے ہیں آپ کیوں نہ زندگی کا باقی حصہ آرام میں گزار لیتے۔

میرے سامنے بیٹھے تھے، پرکشش آنکھوں میں نمی آئی، تھوڑا سا مسکرالئے اور دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کرکے ہوا میں لہرا کر کہنے لگے۔ ”میں اس معاشرے کا سب سے غریب انسان ہوں۔ میں نے زندگی بھر مشقتوں کا سامنا کیا ہے۔ ایک نوالے کے لئے میں کئی کئی دن ترسا ہوں۔ مجھے پتہ ہے معاشرے کے غریب اور پسے ہوئے طبقے کو زندگی میں صرف اپنا پیٹ پالنے کے لئے کتنے سخت مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس طبقے نے اگر مجھ ناچیز کو اپنا رہبر چن لیا ہے تو میرا کوئی حق نہیں بنتا کہ گردوں کو بہانہ بناکر آرام طلب بنوں۔ جب تک زندہ رہوں گا اسی کوشش میں مصروف عمل رہوں گا کہ ہمارے مزدور کو، ہمارے غریب کو اور ہمارے معاشرے کے محروم انسان کو اس کا حق دلادوں“

ایسی باتیں جب وہ کیا کرتے تھے اس کا جذبہ اور یقین دونوں دیدنی ہوا کرتے۔

فانوس گجر ایک تحریک کا نام تھے اور یہی وجہ تھی کہ پورے پاکستان میں اس کی اپنی الگ پہچان تھی۔ معاشیات پر ملکہ حاصل تھا۔ پاکستان کی معاشی پالیسیوں پر دلیل سے بات کیا کرتے تھے اور معاشی مسائل میں ان کے پاس بہترین حل موجود ہوتے۔ ایک بار یہ کہہ کر آبدیدہ ہوگئے تھے کہ جب تک عام اور پسے ہوئے طبقے کا لائف سٹائل اور حکمرانوں کا لائف سٹائل ایک جیسا نہیں بنتا تب تک ہم ایسے ہی من حیث القوم خوار ہوتے رہیں گے۔

رحلت سے ایک دن پہلے میں ڈوڈو کو لے کر ان سے ملنے گیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے وہ ساری غیر رسمی باتیں ڈسکس کی جو میں عام حالات میں شاید نہ کرپاتا۔ مجھ سے بار بار یہی بات کہتے رہے کہ تم دیکھنا ایک دن پاکستان کے سارے غریب ایک خوشحال زندگی کی طرف بڑھنے لگیں گے۔ میں نے پوچھا۔ انکل لیکن آپ کی صحت؟ وہی مسکراہٹ اور آنکھوں کی وہی چمک دوبارہ چہرے پر عود کر آئی اور لفظ جیسے موتی بن کر منہ سے جھڑنے لگے۔ ”میں شاید نہ رہوں لیکن یہ نئی نسل اس سورج کا نظارہ ضرور کرے گی جس کے لئے میں نے کبھی بھی کسی کمپرومائیز کا ارادہ نہیں کیا۔ “

میں نے موت سے ایک دن پہلے کے اس ملاقات میں یہ بھی پوچھا تھا کہ بونیر کے لوگوں نے انتخابات میں کبھی بھی آپ پر شاید اعتماد نہیں کیا۔ آپ ان سے مایوس نہیں ہیں؟

چائے کا گھونٹ حلق میں اتار کر کہنے لگے

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفاء سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

یہ میری آخری ملاقات تھی اس انسان سے جو زندگی بھر دوسروں کے لئے خود سے لڑتا رہا۔ کل رات وہ داعی اجل کو لبیک کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس دارفانی سے کوچ کر چلا گیا تو میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب سوشل میڈیا پر ان لوگوں کے یہ تبصرے سنے کہ ہم ایک عظیم رحمت خداوندی سے محروم ہوگئے جنہوں نے ہمیشہ ان کا مذاق اڑایا۔ کیا ضروری ہے کہ خود کو منوانے کے لئے انسان کو مرنا پڑے؟

کیا جو عزت آج فانوس گجر کو مل رہی ہے یہ اس کی زندگی میں اگر اس کو مل جاتی تو کوئی قیامت آجاتی؟

میں حیران اس لئے ہوں کہ مرنے کے بعد جب منافق دنیا کے یہ مکین مرنے والے کو ہیرا کہہ کر یاد کرتے ہیں تو تعفن سے بھرے اس معاشرے میں سب ہائے اللہ ہائے اللہ کہہ کر دل ہی دل میں مسکراتے بھی ہوں گے کہ شکر ہے جان چھوٹ گئی۔

اللہ بس مغفرت نصیب فرمائے۔
فانوس گجر تو اب ہمارے درمیان نہ رہا لیکن اس کی تحریک ہمیشہ قائم و دائم ریے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).