ڈیم کے معاملے پر سندھ کو سمجھئیے


ہم شاہانہ مزاج کے لوگ ہیں اور یہ ہمارا اجتماعی رویہ بھی ہے، جمہوریت اور جمہوری ادوار کی تعریفیں کرتے ہوئے بھی ہم اجتماعی طور پر جس رویئے کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں وہ بنیادی طور پر آمرانہ ہوتا ہے۔ جب ہم ارسطو بن کے دوسروں کو بیوقوف سمجھتے ہوئے اپنے احکامات جاری کر رہے ہوتے ہیں تب دراصل ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ سامنے بھی کوئی عقل و فہم رکھنے والا انسان موجود ہے۔ یا پھر ہم اپنے تئیں یہ طے کر چُکے ہوتے ہیں کہ ہم ہی عقل کُل ہیں باقی سب عقل سے خالی واقع ہوئے ہیں۔

پاکستان میں حالیہ دنوں میں ڈیم بنانے کی مھم زور و شور سے جاری ہے اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے جاری ہے۔ اُس پہ بھی طُرہ یہ کہ مائے لارڈ نے فرما دیا کہ اگر کوئی اس معاملے پے ذرا سا زبان کھولے گا تو اُس پے آرٹیکل 6 کا اطلاق کردیا جائے گا۔

ایسے حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی انسان کے ذہن میں خدشات ہوں، شکوک و شبہات ہوں اُس کو غلط ہی سہی پر یہ محسوس ہوتا ہو کہ اُس کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے، اُس کا حق تلف کیا جا رہا ہے  یا اُس کے خلاف جو برتاؤ روا رکھا جا رہا ہے وہ خلاف۔ اُصول و قانون ہے تو وہ کہاں جائے اور کونسا دروازہ کھٹکھٹائے کیوں کہ ایسی حالت میں تصفیہ طلب مسائل کے لئے صحت مند سماج آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کا نظام فراہم کرتے ہیں، لیکن جب کسی فرد کو معلوم ہو کہ عدلیہ نے دستور زباں بندی کے احکام جاری فرما دیئے ہیں تو اُس کے اس احساس۔ محرومی کا کیا بنے گا کہ جو اُس کو ان حالات میں پیدا ہوگا کہ اس نظام میں اُس کی سُننے والا کوئی نہیں اور اُس کے پاس جو اختلاف۔ رائے کا بنیادی حق تھا اُس کو سُنے بغیر یہ طے کردیا گیا ہے کہ وہ غلط ہے ۔

معاملا ڈیم بننے کا نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ ایک ایک انچ پر ڈیم کی باتیں بعد کی ہیں پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سندھ ڈیم کے معاملے پر سراپا احتجاج بن کیوں جاتا ہے۔ اس بات پہ غور کیے بغیر جب فیصلے صادر کیئے جاتے ہیں یقیناً شکوک ہی پیدا ہوتے ہیں۔ سندھ کو سمجھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ سندھ پاکستان ہے اور سندھی بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنا کوئی اور ۔
کچھ شکوک و شبہات غلط فہمیاں اپنے ساتھ ایک ماضی رکھتی ہیں اُنکی ایک تاریخ ہوتی ہے وہ ایسے ہی پیدا نہیں ہو جاتیں۔ اگر کوئی مہا دانشور آپ کو یہ آ کے بتائے کہ وہ آپ کے گھر کی چھت پر ایک واٹر ٹینک بنانا چاہتا ہے جس کا مقصد یہ ہوگا کہ جب بھی پانی ضرورت سے زائد ہو تو پانی کو اُس میں جمع کردیا جائے اور جب ضرورت پیدا ہو تو اُس پانی کو استعمال میں لایا جائے تو ایسے میں شاید ہی کوئی عقل کا اندھا ہو جو آپ کی اس کرم نوازی پر کوئی احتجاج یا اختلاف کرے۔

لیکن بات یہیں تک تو ختم نہیں ہو جاتی اس بات کے کچھ اور بھی تو پہلو ہیں۔ ذرا سوچیئے اگر آپ کو یہ یاد آنے لگے کہ آپ کے گھر کی چھت اتنی مضبوط نہیں کہ پانی کا ٹینک تو کیا بنے اُلٹا چھت ہی آپ کے سر پر آ گرے، پانی کی بچت تو دُور آپ سایۂ چھت سے بھی محروم ہو جائیں۔ پھر یہ معاملہ ذرا اور نہ اُلجھ جائے جب آپ کو یاد آئے کہ پچھلے ہی دنوں تو آپ کے گھر کی چھت پہ ایک واٹر ٹینک اسی والے دعوے اور دلیل کے ساتھ بنائی گئی تھی جو اب دیئے جا رہے ہیں اور نتیجہ یہ نکلا تھا کہ واٹر ٹینک تو آپ کے گھر کی چھت پر بنائی گئی تھی آپ کو مشکل وقتوں میں مدد فراہم کرنے کو کہ آپ اپنا بچایا ہوا پانی استعمال کرین وہ تو درکنار کہ آپ کو اضافی بچایا ہوا پانی ملتا، پڑوسیوں نے آپ کی واٹر ٹینک سے کنیکشن نکال لیے اور مشکل حالتوں میں تو آپ کو پانی کیا ملتا، آپ کو روزانہ جو معمول کے مطابق پانی ملتا تھا وہ بھی نہیں ملتا اور طرہ یہ کہ اب آپ پر یہ بھی فرض کردیا گیا ہے کہ اب آپ اس پر کوئی اختلاف بھی نہیں کریں گے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ کو غدار تصور کیا جائے گا۔

ماضی میں بننے والے ڈیم اُن سے نکلنے والے کینال اُن کینالوں کا 12 ماہ بہنا اور اُس پر عدلیہ اور کسی ادارے کی طرف سے کوئی روک نہ لگانا خُشک ہوتا سندھ، سمندر کا لاکھوں ایکڑ کا رقبہ برباد ہو جانا، کوسٹل بیلٹ کی تباہی، یہ سب چیزیں ہیں جو سندھ کے ذہن میں ہیں۔ سندھ ان چیزوں پہ تسلی اور تشفی کا متقاضی ہے۔ سندھ چاہتا ہے کہ اُس کی سُنی جائے، سندھ چاہتا ہے کہ سُننے والا غیر جانبدار ہو، سندھ چاہتا ہے کہ اُس کو جو لگ رہا ہے اُس کے ساتھ غلط ہو رہا ہے اُس پر اُس کو وضاحت دی جائے پر یہ دستور زباں بندی کا اجرا پھر سے ذہن کی زمینوں میں شکوک و شبہات کے بیج بو دے گا اور شکوک جب پیدا ہو جائیں تو اتنی آسانی سے دور نہیں ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).