معذور افراد کا دن ضرور منائیں، لیکن پہلے انہیں حقوق دلائیں



گونگے بہت بولتے ہیں۔ یہ فقرہ جو بھی پڑھے گا ہمیں عقل سے عاری سے سمجھے گا۔ لیکن یقین مانئیے گونگے واقعی بہت بولتے ہیں۔ خصوصی تعلیم میں بطور ٹیچر فرائض سر انجام دیتے ہمیں تقریباً آٹھ سال ہو گئے ہیں۔ اس دروان جتنی گفتگو ہم نے گونگوں سے کی ہے شائد ہی کسی بولنے والے سے کی ہو۔ خصوصی افراد اور خصوصی تعلیم سے ہمارا تعلق بہت پرانا ہے۔ اس وقت سے جب ہم ابھی “سپیشل” کے مفہوم سے بھی نا آشنا تھے۔ پی ٹی وی پر ایک پروگرام چلتا تھا بولتے ہاتھ، جس میں میزبان کی گفتگو کو “اشاروں ” کی زبان میں بھی سمجھایا جاتا تھا۔ ہم سحرزدہ ہو کے اس کو دیکھا کرتے تھے۔ روانی سے چلتے ہاتھ ہمارے دل کی دھڑکن بھی بڑھا دیتے تھے۔
اس پروگرام نے ہمارے ذہن میں کئی سوالوں کو جنم دیا۔ کچھ لوگ ہم سے مختلف کیوں ہیں؟ اگر مختلف ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ لوگ پڑھتے کیسے ہیں؟ اپنی بات دوسروں کو کیسے سمجھاتے ہیں؟ ان کے گھر والے ان کی ضروریات کو کیسے سمجھتے ہیں؟ سوالوں کا لامتناہی سلسلہ تھا جو ہمیں الجھائے رکھتا اور تسلی بخش جواب ہمیں کوئی نہ دیتا۔ وقت گزرتا رہا اور ہمارے سوالنامے کا قد بڑھتا گیا۔
اساتذہ سے پوچھا، گھر والوں سے پوچھا، نتیجہ وہی “ڈھاک کے تین پات”۔ اس وقت پاکستان اور خاص طور پہ جنوبی پنجاب میں خصوصی افراد اور ان کی تعلیم کے کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں تھے۔ کچھ میڈیا بھی اتنا ایڈوانس نہیں ہوا تھا کہ ہر کسی کو آگہی ہوتی۔ سماعت سے محرومی وہ پہلی کیٹیگری تھی جس سے ہم آگاہ ہوئے۔ اور اس نصیحت کے ساتھ کہ ان سے دور رہا جائے کیونکہ ان کی ایک “رگ” فالتو ہوتی ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ تجسسس بڑھتا گیا اور ہم خصوصی افراد کی مزید اقسام بھی واقف ہو گئے۔ لیکن مجھے نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ ہر دور میں ان افراد کے لئے یہی کہا جاتا رہا کہ ان کی ایک “رگ” فالتو ہوتی ہے۔ جسمانی معذور، محروم بصارت اور ذہنی طور پہ پسماندہ سب کے بارے میں عمومی خیال یہی تھا۔ اس دوران کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں مگر نہ بدلی تو صرف خصوصی افراد کی قسمت۔
ہم خصوصی تعلیم سے وابستہ افراد نے بھلے کسی حد تک اپنا رویہ بدل لیا ہے لیکن مجموعی طور پر صورتحال اب بھی پہلے جیسی ہی ہے۔ حکومتوں کی تبدیلی سے فقط اتنا فرق پڑا کہ خصوصی تعلیم کے لئے مذید ادارے قائم کر دئیے گئے۔ اور نئے اساتذہ کی تقرریاں ہوئیں۔ ادارے قائم تو کر دیئے گئے لیکن کیا یہ ادارے خصوصی افراد کی خصوصی ضروریات کے مطابق ہیں؟ کیا خصوصی بچے اپنے اداروں میں خود ایک عام انسان کی طرح سمجھتے ہیں؟
اگر جسمانی معذوران کا سکول ہے تو کیا عمارت ایسی ہے کہ وہ آسانی سے نقل وحمل کر سکتے ہیں؟ کیا وہاں ان کے لئے کوئی ایسا انتظام ہے کہ وہ سکول سے تعلیم لے کر فارغ ہوں تو ان کے پاس ڈگری کے ساتھ ساتھ کوئی ہنر بھی ہو؟ کیا کبھی کسی حکومت نے یہ بھی سوچا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی پر خصوصی افراد کا بھی حق ہے؟
یہی رویہ ذہنی طور پہ پسماندہ افراد کے ساتھ ہے۔ ان کے سکولز کی بلڈنگ کو چھوڑیں، علیحدہ کونا بھی مل جائے تو بڑی بات ہے۔ ان کے ساتھ تو رویہ بھی غیر انسانی ہی رکھا جاتا ہے۔ کیا ان افراد کی بحالی حکومت وقت کی ذمہ داری نہیں بنتی؟ اپر پنجاب میں شاید صورتحال کچھ بہتر ہو لیکن جنوبی پنجاب میں تو ابتر ہے۔
کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ بنیادی ضروریات میں “تفریح” کی ضرورت بھی شامل ہے؟ خصوصی افراد کو بھی “تفریح” کا حق ہے۔ ان کے لئے بھی پارک اور تفریح گاہ ضروری ہے۔ ان کی شادیوں کا مسئلہ کیسے حل ہو گا، یہاں تک تو کوئی سوچ پرواز کر ہی نہیں سکتی۔
ہر سال 3 دسمبر کو پوری دنیا میں معذور افراد کا دن منایا جا تا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک، سب ہی حسب توفیق اس دن کو”منانے” میں اپنا کردار نبھاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کیا ایک دن منا لینے سے سارے حق ادا ہو جاتے ہیں؟
ہیلن کیلر نے کہا تھا کہ “بینا لوگ اصل میں کچھ نہیں دیکھتے” ۔ اس نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ اگر ہم لوگ دیکھ سکتے تو ہمیں یہ سب “دکھائی” دیتا۔ اس میں تھوڑا اور اضافہ کر لیتے ہیں۔ ہم سننے والے دراصل کچھ نہیں سنتے، اگر سن سکتے تو ہمیں ان “خصوصی افراد ” کی آواز سنائی دیتی۔ نابینا لوگ وہ بھی دیکھ لیتے ہیں جو ہم دیکھنے والوں کی آنکھ سے اوجھل رہ جاتا ہے۔ تبھی تو سڑک پہ کھلے گٹر کو بند کرنے کے لئے بھی ٹی۔ ایم۔ اے کو وہی درخواست دیتے ہیں۔ گونگے بہت بولتے ہیں لیکن سماعت سے محروم معاشرے کو کچھ سنائی نہیں دیتا۔ ذہنی پسماندہ سماج کو اج تک یہ سمجھ ہی نہیں آئی کہ دن منانا ضروری نہیں، حق دلانا اہم ہے۔ دن ضرور منائیں لیکن پہلے حق دلائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).