جزیرے صدا دیتے ہیں


آسمان کی وسعت، سورج، چاند، ستارے، دنیا کے بلند وبالا پہاڑ، پیڑ، پودے، جنگلات، سمندر، ندی اور آبشار سمیت کائنات کی ہر چیز میں اللہ تعالی کی وحدانیت کا زندہ ثبوت ہے اور انہیں وحدانیت میں دنیا بھر میں گہرے سمندروں کی بیچ و بیچ پھیلے ہو ئے جزائر اس کی وحدانیت میں سے ایک ہے۔ ویسے تو سمندروں کے در میان اب بھی بے شمار لاتعداد جزائر مخفی ہیں مگر اب تک لگ بھگ 327 جزائر نا صرف منظر عام پر آچکے ہیں بلکہ بیشتر پر لوگ آباد ہیں جبکہ 17 ممالک ایسے ہیں جو کہ جزائر پر ہی قائم ہیں۔ ان ممالک میں آئس لینڈ، آشمور کارٹنر جزائر، امریکی سمواں، ترک اینڈ کیکا وس جزائر، شمالی امرینہ آئرلینڈ، فیرو جزائر، کرسمس آئر لینڈ، کک آئرلینڈ، کورال آئر لینڈ، کوکو ئر جزائر، کیمن جزائر، مارشل آئرلینڈ، نور فوک آئرلینڈ، ورجن آئرلینڈ، ویلیس آئرلینڈ، سپرو آئرلینڈو دیگر شامل ہیں۔ جہاں با قاعدہ طور پر نا صرف فصلیں کاشت کی جاتی ہیں بلکہ وہاں چراگاہوں کے ساتھ اپنے ایئر پورٹ، ٹی و ی اسٹیشن، براڈکاسٹنگ کارپوریشن قائم ہیں اور جہاں سے دنیا بھر میں با قاعدہ طور پر در آمدبر آمد بھی کی جا تی ہے جبکہ بعض ایسے بھی جزائر ہیں جن پر تحقیقاتی مشن اپنی تحقیق کا کام انجام دے رہے ہیں۔ بیشتر جزائر ایسے بھی ہیں جو بیک وقت تین تین ملکوں کی ملکیت ہیں۔ ان میں سے کئی جزائر فرانس، برطانیہ اور امریکہ کے بھی زیر اثر ہیں اور اس کے چاروں طرف صرف پانی ہی پانی ہے لہذا انہیں ملکوں کی افواج ان کی حفاظت کیا کرتی ہیں۔

اب جہاں تک دنیا کے سب سے بڑے جزائر کا تعلق ہے تو ان میں آسٹریلیا کا گرین لینڈ جو کہ 2166.086 اسکوائر کلومیٹر پر محیط ہے جبکہ دوسرے نمبر کا بڑا جزیرہ نیو گیا 786.00 اسکوائر کلومیٹرجبکہ تیسرے نمبر کا بڑا جزیرہ بورنیو جو کہ 287.001 کو ما نا جا تا ہے جبکہ انڈونیشیا کا جاوا جزیرہ، جاپان کا ہوشی جزیرہ، انگلینڈ میں گریٹ برٹن، انڈونیشیا کا سماٹرا، سری لنکا کا سیلون جزیروں کا شمار بھی دنیا کے بڑے جزیروں میں ہو تا ہے۔ ان جزیروں میں ہر جزیرہ ایک سے بڑھ کر ایک ترقی یافتہ ہیں۔

بلکہ 327 جزائر میں سے دنیا بھر کے بیشتر جزائر پر نا صرف ترقی یافتہ قومیں آباد ہیں بلکہ وہاں تعلیمی شرح 99 فیصد ہے ان جزائر پر بڑے بڑے امپائر قائم ہیں جبکہ کئی ایک جزیرے جن پر ہریالی ہی ہریالی ہے بہترین پکنک پوائنٹ کا کام انجام دے رہے ہیں اور لوگ با قاعدہ طور پر ویک اینڈ منا نے کے لئے ان جزائر پر جا تے ہیں۔ جس طرح یورپین ممالک میں جزائر قائم ہیں ٹھیک اسی طرح اللہ تعالی نے ہندوستان اور پاکستان کو بھی اس سے محروم نہیں رکھا۔ جس کے تحت بھارت میں 17 جزائر جن میں اندھرا پردیش، اسام، گوا، بہار، کیرالہ کے جزائر شامل ہیں جبکہ پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں لگ بھگ 12 جزیرے قائم ہیں۔ جن میں بلوچستان کے اسٹولہ جزیرے کو سب سے بڑا جزیرہ قرار دیا جا تا ہے جبکہ میلان اور زلزلہ کوہ جزیرہ بھی رقبے کے لحاظ سے وسیع ہے۔

کراچی میں بھی با با آئرلینڈ، با با بھٹ، پیر شمس، منوڑہ، کلفٹن راک، ہاکس بے، چرنا آئرلینڈ، کیرا والا اور حال ہی میں ٹھٹھہ میں در یافت ہو نے والا جزیرہ وی ٹو شامل ہے جو کہ نا صرف انتہائی قدیم ہے بلکہ اس جزیرے پر ماضی میں حکمرانی کر نے والے منگول قوموں کے قدیم مکانات و نوادرات ملے ہیں مگر ان جزائر پر اب تک کسی قسم کی کوئی تحقیق نہیں ہو ئی جس کے سبب آج بھی ان کی تاریخ خاموش ہے۔ شہر کراچی میں ایسے چار جزائر موجود ہیں جن پر ہزاروں کی تعداد میں ماہی گیر صدیوں سے آباد ہیں۔ منوڑہ جزیرے پر باقاعدہ طور پر نا صرف لائٹ ہاؤس قائم ہے جو کہ بحری جہازوں کو سگنل کی مدد سے بندر گاہ پر لنگر انداز ہو نے کی مدد کر تا ہے بلکہ یہاں پاکستان نیوی کے ٹریننگ سینٹر اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ اس جزیرے کے بارے میں مورخین کا کہنا یہ ہے کہ شہر کراچی کا آغاز اسی جزیرے سے ہوا جہاں ایک فصیل کے اندر پورا شہر آباد ہوا کر تا تھا جو کہ اب صرف قصہ کہانیوں میں زندہ ہے۔

اس کے ساتھ ہی با با بھٹ نا می جزیرہ ہے. جس کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ کیونکہ بھٹ کچھی اور سندھی زبان میں چٹان کو کہا جا تا ہے لہذا یہ جزیرہ پہلے ابتدا میں ایک چھوٹے سے جزیرے پر مشتمل تھا مگر سمندر پچھلے 100 سالوں کے درمیان 50 میل پیچھے کی جا نب ہٹا ہے چنانچہ یہ جزیرہ بھی ایک بڑا جزیرہ بن چکا ہے جہاں نا صرف بزرگان دین آسودہ خاک ہیں بلکہ اس جزیرے پر رہنے والے مچھوارے کچے پکے مکانوں میں قیام پذ یر ہیں۔ اس جزیرے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں صدیوں پرا نے قدیم آثار بھی موجود ہیں جن میں لکڑی کے تختوں سے بنا ایک ہوٹل بھی شامل ہے جو کہ آج بھی اسی انداز میں موجود ہے اور اس جزیرے کی قدامت بیان کر رہا ہے.

اس جزیرے سے کچھ ہی فا صلوں پر بابا آئرلینڈ نامی جزیرہ موجود ہے جہاں کی جیٹی سے لے کر آبادی تک دور دور تک ماسوائے غربت اور افلاس کے کچھ نظر نہیں آ تا اس جزیرے پر بھی لکڑی کے پرا نے قدیم گھر موجود ہیں جو کہ ٹوٹی پھوٹی لکڑیوں سے بنا ئے گئے دیواروں سے گھر کے مکینوں کی احوال بیان کر رہے ہو تے ہیں اس جزیرے پر ایک نہیں بلکہ 2 ٹوٹی پھوٹی جٹیاں ہیں جن میں سے ایک جٹی کو کوئلہ جیٹی کہا جا تا ہے اس جیٹی کے بارے میں لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ماضی میں سر ایڈلجی ڈنشا اور کاوس جی کوئلے کا کاروبار کیا کر تے تھے اور منگایا جا نے والا کوئلہ صا ف کر کے بحری جہازوں، ٹرینوں اور ٹراموں کو چلائے جانے کے لئے استعمال کیا جا تا تھا کیونکہ ماضی میں جہاز، ٹرینیں، ٹرامیں بھانپ سے چلا کر تی تھیں.

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ جزیرہ جو کہ انتہائی قدیم ہے اور لوگوں کی گزر اوقات صرف مچھلی کے شکار پر منحصر ہے سال میں جون جولائی کے مہینے سمندر کے ہائی ٹائیڈ ہو نے پر شکار نہ ملنے پر کئی کئی دن فاقوں کے دن بھی دیکھنا پڑتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کی زبان پر اف تک نہیں آتی۔ اسی جزیرے کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس وقت جب ماہ ربیع اول کا اعلان ہو چکا ہے اس اعلان کے ساتھ ہی اس علاقے کے واسیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لال رنگ کے کپڑوں اور گرین جھالروں کی مدد سے شامیانے بنا کر پورے جزیرے کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سجا یا ہے اور انہیں شامیانوں میں رنگ برنگے برقی قمقمے لگا رکھے ہیں جبکہ جگہ جگہ مٹی کے گاروں سے بنی دیواروں پر بڑے بڑے بینرز نصب کیے گئے ہیں جس میں محبوب کی آمد مر حبا کے نعرے درج ہیں۔

اس جزیرے پر بھی ایک نہیں بلکہ دو بزرگ کے مزارات بھی موجود ہیں جہاں اکثر و بیشتر روحانی تقریبات منعقد ہو تی ہیں۔ اسی جزیرے سے خاصے فاصلے پر وہاں مدفون بزرگ حاجی پیر شمس کے نام سے ایک اور جزیرہ بھی موجود ہے اس جزیرے کے حوالے سے مورخین کا کہنا ہے کہ یہ قدیم ترین جزیرہ ہے جہاں پہلے بدھسٹ آباد تھے اس جزیرے پر بھی غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں لیکن یہاں کے لوگو ں کے دل بہت بڑے ہیں جنہوں نے اپنے گھر وں کے درودیوار کو پختہ کر نے کی ضرورت محسوس نہیں کی لیکن انہوں نے عین جزیرے کی جیٹی کے سامنے ایک عالیشان مسجد 5 کروڑ کی لاگت سے تیار کر وائی ہے جو کہ نا صرف خوبصورتی کی اعلی مثال ہے بلکہ اس میں نمازیوں کی تعداد بھی شہر کی تمام مساجد سے زیادہ ہے۔

اس جزیرے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس جزیرے پر عین سمندر کے نزدیک ایک علاقے میں پتھروں کے مینار پیدا ہو تے ہیں اور ان کے قد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اس حوالے سے اب تک 6 سے زائد زمین سے اگنے والے پتھر کئی کئی فٹ لمبے ہو چکے ہیں جس کے حوالے سے بعض ہندو عقیدے سے تعلق رکھنے والے مہاراج کا کہنا یہ ہے کہ یہ پتھر نہیں بلکہ شیولنگ ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اس جزیرے پر کبھی کوئی قدیم مندر موجود تھا مگر اس کے باوجود آج تک محکمہ آثار قدیمہ یا کسی اور نے ان جزیروں جن کے بارے میں مورخین دعوی کر تے ہیں کہ یہ تمام جزائر 300 سال سے 1000 سا ل پرا نے ہیں کبھی تحقیق کی زحمت محسوس نہیں کی ان تمام جزائر پر پانی بجلی گیس کی سہولیات تو موجود ہیں مگر با قاعدہ طور پر بجلی کے بل ادا کر نے کے باوجود یہاں کے بسنے والے 18 گھنٹے بجلی سے محروم ہیں جبکہ پانی کے بڑے بڑے پلانٹ موجود ہو نے کے باوجود لوگ 150 روپے سے 200 روپے فی ڈرم پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں ان تمام جزیروں کو صحت کی سہولیات فراہم کر نے کے لئے حکومت نے ڈسپنسریاں قائم کر رکھی ہیں مگر ان ڈسپنسریوں میں ڈاکٹراور ادویات موجود نہیں اور نہ ہی بیماروں کو ہسپتال پہنچا نے کے لئے کسی قسم کی لانچ ایمبولنس کا بند و بست ہے جس کے سبب یہاں بیمار پڑنے والے لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کو گلے لگا لیتے ہیں مگر ان کا کوئی پر سان حال نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).