میکاولی کا قول اور ڈاکٹرفرخ سلیم کا اعتراف


میکیاولی نے بادشاہوں کو بہت درشتی سے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ لوگ سرکار کی جانب سے اپنے عزیز ترین افراد کا قتل تو بھول جاتے ہیں مگراپنے زریا زمین پر ڈالا ہاتھ کبھی معاف نہیں کرتے۔میکیاولی کی بتائی اس بات کو سمجھنے کے لئے پاکستان پر نگاہ ڈال لیتے ہیں۔

بھارت کی فوجی جارحیت کی وجہ سے مشرقی پاکستان کھودینے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بقیہ پاکستان میں اقتدار سنبھالا تو بڑی صنعتوں کو قومیا لیا گیا۔یہ صنعتیں بنیادی طورپر 22بڑے خاندانوں کی ملکیت تھیں۔ ان خاندانوں کو سرکار کی پشت پناہی میں سرکاری زمینیں الاٹ کرنے اور آسان شرائط پر بینکوں سے بھاری رقوم دلواکر ’’ذہین صنعت کار‘‘ بنایا گیا تھا۔

1950کی دہائی میں شروع ہونے والی یہ سرپرستی فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں اپنے عروج پر پہنچی۔ ایوب خان کے دور کو ’’دس سالہ عہد ترقی‘‘بھی کہا گیا جس کی یاد ہمارے وزیر اعظم کو ہر وقت ستائے رکھتی ہے۔بہت کم لوگوں کو مگر یہ حقیقت یاد ہے کہ اسی دور کی ’’معاشی ترقی‘‘ پر تحقیق کرتے ہوئے ایک زمانے میں پاکستان کی وزارتِ منصوبہ بندی کے اہلکار ڈاکٹر محبوب الحق نے 1967میںایک مقالہ لکھا تھا۔

اس مقالے نے یہ حیران کن انکشاف کیا کہ سرکاری سرپرستی کی بدولت صرف22خاندان ہمارے ملک میں جاری ہرکاروبار کے اجارہ دار بن چکے ہیں۔ان کا اجارہ فقط صنعتوں تک محدود نہیں رہا۔ بینکنگ اور انشورنس کے شعبے بھی ان کی مکمل دسترس میں ہیں۔

ایوب خان سے جدا ہوکر ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی بنائی تو اس جماعت نے سوشلزم کا نعرہ بلند کیا۔ 22خاندانوں کی اجارہ داری ختم کرنے کا عہد کیا۔ اس جماعت کیلئے اپنے منشور کے مطابق بھاری صنعتوں کو قومیانہ ضروری تھا۔عام حالات میں لیکن وہ اس وعدے کو نظرانداز کرسکتی تھی۔

مشرقی پاکستان الگ ہونے کی وجہ سے ہمارے صنعت کار مگر ایک بہت بڑی منڈی سے بھی محروم ہوگئے۔روزانہ کی بنیاد پر ہڑتالیں اور پولیس مقابلے شروع ہوگئے۔ وہ کاروبار جسے یہ ’’ذہین صنعت کار‘‘ چلا نہیں پارہے تھے قومیا لئے گئے۔

ان دنوں کے معروضی حقائق کے جبر کی وجہ سے شاید اور کوئی آپشن میسر ہی نہیں تھا۔بھاری صنعتوں کو قومیانے کے بعد بھی لیکن انہیں چلانے یا وسعت دینے کے لئے سرمایہ دستیاب نہیں تھا کیونکہ ہمارے بڑے بینک بدستور انہی 22خاندانوں کی ملکیت تھے۔بالآخر انہیں بھی 1974میں قومیا لیا گیا۔

صنعتوں اور بینکوں کو قومی تحویل میں لینے والا بھٹو حکومت کا فیصلہ آج تک معاف نہیں ہوا۔ آج بھی کسی محفل یا ٹی وی پروگرام میں پاکستانی معیشت پر بحث کا آغاز ہو تو پاکستان میں ’’صنعتی زوال‘‘ کی کہانی ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے صنعتوں کو قومیانے کے عمل سے شروع کی جاتی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی بنائی پاکستان پیپلز پارٹی 3 بار اقتدار میں رہی ۔ ان میں سے کسی ایک حکومت پر بھی ہمارے سرمایہ دار طبقے نے اعتماد نہیں کیا۔اسے ہمیشہ اپنا’’ویری‘‘ تصور کیا۔ 1980کی دہائی میں نواز شریف کی دریافت اور ان کی دائمی ریاست کے اہم اداروں اور کاروباری افراد کی جانب سے کئی برس تک سرپرستی کی بنیادی وجہ یہ حقیقت بھی تھی کہ شریف خاندان کا کاروبار بھی بھٹو صاحب نے قومیا لیا تھا۔

نواز شریف کے بارے میں یہ تصور پھیلایا گیا کہ ایک کاروباری خاندان کے فرزند ہونے کی وجہ سے وہ ملکی معیشت کو جلوے فراہم کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں۔ پاکستان کو ’’ایشیائی ٹائیگروں‘‘ کی فہرست میں لاسکتے ہیں۔

وفاق میں تین بار حکومت حاصل کرنے کے بعد بھی نواز شریف لیکن وہ سب کچھ نہ کر پائے جس کی توقع باندھی جارہی تھی۔ اگرچہ غیر جانبدارانہ مبصرین یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہیں کہ اپنے چند اقدامات کے ذریعے انہوں نے اس ملک میں کاروباری افراد کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی۔

غیر ملکی کرنسی پر سٹیٹ بینک کے اجارے کو ختم کرنا ایسا ہی ایک قدم تھا۔ اس کے علاوہ موٹرویز وغیرہ کی تعمیر کے ذریعے انفراسٹرکچر کی فراہمی اور آخری دور میں لوڈشیڈنگ ہر ممکن طریقے سے ختم کرنے پر بھرپور توجہ دینا۔نواز حکومت کے ان تمام اقدامات کو مگر ان کے سیاسی مخالفین نے شک و شبے کی نگاہ سے دیکھا۔

درست یا غلط یہ کہانی پھیلائی گئی کہ صنعتی ترقی کے نام پر شریف خاندان درحقیقت میگا پراجیکٹس کے ذریعے اپنی ذات ،خاندان، قریبی دوستوں اور پسندیدہ سرکاری افسروں کے لئے ’’کک بیکس‘‘ اکٹھا کررہا ہے۔بھاری سودوں کے عوض حاصل ہوئی رقوم کو مختلف ذرائع سے غیر ملکوں میں بھیج کر وہاں قیمتی جائیدادیں خریدلی گئی ہیں۔

’’پانامہ‘‘ کے نام پر منکشف ہوئی دستاویزات نے اس کہانی کو ’’مستند ثبوت‘‘ فراہم کردئیے۔ ’’عجب کرپشن کی غضب کہانیاں‘‘ عام افراد کی دانست میں درست ثابت ہوئیں۔ان کا ’’حساب‘‘ لینے کے نام پر ذاتی طورپر بہت ہی ایمان دار مشہور ہوئے عمران خان صاحب اگست 2018میں اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔

انہیں اقتدار سنبھالنے سے قبل پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سے ’’صادق اور امین‘‘ پکارے جانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔اگرچہ یہ اعزاز راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کو بھی حاصل ہوا۔ ان دو کے علاوہ پاکستان کا ہر سیاست دان ایمان داری کے تناظر میں ’’مشکوک‘‘ شمار ہوتا ہے۔

سوال مگر اب یہ اُٹھ رہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے صادق وامین ٹھہرائے اور ذاتی طورپر بہت ہی ایمان دار تصور کئے عمران خان صاحب پاکستان کے معاشی محاذ پر رونق کیوں نہیں لگاپارہے۔

خان صاحب کے سیاسی مخالفین اگر یہ سوال اٹھائیں تو اسے تعصب ٹھہراکر نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ذاتی طورپر میرے لئے بہت ہی محترم مگر ڈاکٹر فرخ سلیم صاحب بھی ہیں۔ عمران حکومت نے انہیں اپنی معاشی پالیسیوں کے دفاع کا فرض سونپ رکھا ہے۔فرخ صاحب کئی برسوں سے پاکستان کے ایک معروف انگریزی اخبار کے لئے ہفتہ وار کالم بھی لکھتے ہیں۔

اس کالم کے ذریعے وہ ٹھوس اعدادوشمار کی بنیاد پرگزشتہ حکومتوں کی معاشی پالیسیوں کے بارے میں لٹ گئے مرگئے کا تاثر دیتی کہانیاں بیان کرتے رہے ہیں۔انگریزی میں ان کہانیوں کو Doom and Gloom Storiesکہا جاتا ہے۔

گزرے اتوار کے دن ڈاکٹر فرخ سلیم صاحب نے اپنے کالم کے اختتام پر اعتراف کیا کہ اسلام آباد کے بازاروں کا غیر رسمی سروے کرنے کے بعد وہ ذاتی طورپر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس شہر میں کاروبار اپنی عمومی اوسط سے تقریباََ 30سے 40فی صد تک کم ہوگیا ہے۔

سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اگر ایک دوکانداراس شہر میں روزانہ سو روپے کا دھندا کرتا تھا تو ان دنوں یہ 60سے 70روپے تک محدود ہوگیا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اس مندی کی وجہ کاروباری افراد کے ذہنوں پر چھاپے Confusionکو ٹھہرایا جس کی غالب وجہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر کاحتمی تعین نہ ہونا نظر آرہی ہے۔

معاشی امور کے بارے میں تقریباََ جاہل ہونے کے باوجود میں یہ دعویٰ کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ وجہ اتنی سادہ نہیں ہے۔عمران خان صاحب نے ’’ہر صورت احتساب‘‘ والے وعدے پر عمل کو یقینی بنانے کے لئے وزارتِ داخلہ بھی اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ نیب والوں کو بھی اکثر وہ ’’سست روی‘‘ کے طعنے دیتے رہتے ہیں۔

تاثر یہ پھیل رہا ہے کہ شاید ہر کاروباری شخص کسی نہ کسی نوعیت کی بدعنوانی میں ملوث ہے۔ ریاستی اداروں کو یکسو ہوکر بدعنوانی کے تمام ممکنہ راستوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔بدعنوانی کی ہر ممکن شکل کی ہر صورت خاتمے کی تکرار نے بازار میں خوف کی فضا پیدا کردی ہے۔ اسی خوف کے باعث مجھے میکیاولی کا وہ قول یاد آیا ہے جس سے آج کے کالم کا آغاز کیا تھا۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).