بیمار ہوئے جس کے سبب


۔

یہ بات ہم شروع سے ہی کہتے آئے ہیں کہ گلگت بلتستان کا معاملہ براہ راست اسٹیبلیشمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔ جی ہاں! اسٹیبلیشمنٹ یعنی خلائی مخلوق، اسٹبلیشمنٹ کے نقاب میں دراصل اصل شریک کار دھندلا ہی دکھائی دیتا ہے۔ تو گلگت بلتستان کو جب بھی جیسا بھی اسٹیٹس دینا ہو یہ اسٹیٹس راولپنڈی کی ٹیبل سے ہو کر ہی منظور ہو گا۔ پیپلز پارٹی شروع سے ہی، جبکہ مسلم لیگ ن 2002 کے بعد اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکرانے کی جرات نہ کر سکی تو کم از کم دونوں پارٹیوں نے مختلف مواقع پر اس کی پالیسی سے اختلاف ضرور کیا ہے۔

بسا اوقات اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی لانے کی بھی سعی لا حاصل کر کے دیکھا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ کی سرخ لکیر کو گاہے بگاہے پھلانگنے والی پارٹیاں اپنی اپنی بساط کے مطابق سیٹ اپ دی گئیں۔ اب یہ تحریک انصاف کس مرض کی دوا ہے جو گلگت بلتستان کو یہاں کے عوام کی امنگوں کے موافق اور خلائی مخلوق کی پالیسی کے برخلاف کوئی پوزیشن دینے کی ہمت کر سکے گی؟ پی ٹی آئی تو اسٹیبلیشمنٹ کی کاسہ لیس ہے۔ سیاسی مقروض ہے۔ اپنے خالقوں کی جی حضوری کرنے کے سوا یہ کر ہی کیا سکتی ہے؟

سو اگر گلگت بلتتستان کو کوئی سیٹ اپ دے بھی دیا گیا تو یہ یہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام اور پی ٹی آئی حکومت کے مائی باپ اسٹیشلیشمنٹ کے سوچنے کے زاویے میں بعد المشرقین ہے۔ در اصل اس ڈرامے کا اسٹیج 2014 میں بیجنگ میں تیار کیا گیا تھا۔ چین نے سی پیک کے تناظر میں نواز شریف اور راحیل شریف کو بٹھا کر استفسار کیا تھا کہ گلگت بلتستان کی پوزیشن واضح کرو۔ اس کے بعد ہل جل شروع ہوئی۔

سرتاج عزیز کمیٹی بنی۔ سرتاج عزیزی کمیٹی نے اپنے حساب سے سب کے لئے قابل قبول رپورٹ بنائی۔ یعنی کشمیر کاز بھی متاثر نہ ہو، چین بھی مطمئن ہو، ریاست کی پالیسی بھی برقرار رہے۔ اب جو بھی سیٹ اپ ہو گا، بنیادی طور پر سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ کے بطن سے ہی جنم لے گا۔ کیونکہ اسٹیبلیشمنٹ کی مرضی و منشا سے بنی اس کمیٹی نے ایسا سامان فراہم کر دیا ہے کہ چین کو بھی مطمئن کیا جا سکے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے۔

اوپر سے مسئلہ کشمیر پر ریاست کا ایگو بھی ہٹ نہ ہو۔ سو یہ معاملہ نہ نواز شریف کے ہاتھ میں تھا نہ ہی عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ نہ گلگت بلتستان کے عوام کی ڈیمانڈ پر کوئی پیشرفت ہوئی ہے نہ ہی ریاست پاکستان کو 70 سال بعد اچانک یہاں کے سادہ لوح لوگوں سے عشق ہو گیا ہے۔ اب تحریک انصاف جیسا بھی سیٹ اپ دے بنیادی طور پر آرڈر 2018 کا ہی چربہ ہو گا، سرتاج عزیز کمیٹی رپورٹ ہی اس کی سرخیل ہو گی۔ بس الفاظ کا ہیر پھیر ہو گا۔ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا نہ عمران خان کے بس کی بات ہے نہ ہی ان کی ترجیح۔ یہ عمران خان کا کام نہیں، ان سے اوپر والوں کا کام ہے۔ لہذا گلگت بلتستان والوں کو زیادہ ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen