کیا سندھ کو ہم پہ فخر ہے؟


 

تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے، یہ اپنے اندر عروج و زوال کی کئی داستانیں سمیٹتے ہوئے کسی سے نا انصافی نہیں کرتی۔ بہت دور نہ جائیں بس ذرا امریکا کی تاریخ پہ نظر دوڑائیں، آپ کو یہ اک عبرتناک داستان محسوس ہوگی۔ موجودہ دور کے اس ترقی یافتہ ملک کے اصل باشندے دراصل ریڈ انڈین ہیں یہ یہاں سینکڑوں صدیوں سے آباد تھے، جنوبی امریکا میں موجود کھنڈرات آج بھی اس قوم کے وسیع شہر، عبادتگاہیں، کھیل کے میدان، چوڑی گلیاں اور نکاسیۍ آب کے بہترین انتظامات نظر آتے ہیں۔ یہ شہر لنڈن سے پانچ گنا بڑا تھا جس میں ساٹھ ہزار سے زیادہ حمام، وسیع نہری نظام اور خوبصورت باغات اسے دنیا کے تمام شہروں سے ممتاز بناتے تھے۔ جب باقی دنیا صابن سے نا آشنا تھی یہ قبیلے اس سے نہاتے، پرفیوم لگاتے اور رنگ برنگی لباس پہنتے تھے۔

مگر یہ قوم وقت کے ساتھ چلنا نہ سیکھ سکی۔ جدید دور کے تقاضوں سے نا آشنا رہی، اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں نہ بنا سکی، جدید جنگی طریقوں سے نابلد تھے اور Human investment پہ ذرا بھی توجہ نہ دے سکے، تنتیجہ کیا ہوا؟ سترہویں صدی میں سونے کی لالچ میں آنے والی انگریز اقوام نے انُکے ملک پہ قبضہ کرلیا، لوگ جرمن ہولوکاسٹ کی مثالیں دیتے ہیں لیکن امریکن ہولوکاسٹ اس سے کہیں بدترین تھا جو ریڈ انڈین کے ساتھہ کھیلا گیا۔

 یہ نسلی فسادات کا نتیجہ نہیں تھا۔ اک Pre۔ Plan نسل کشی تھی جس کے احکامات براہ راست  سفید فام امریکی حکمرانوں نے دیے تھے، جس کے نتیجے میں ایک سو ملین سے زیادہ بلا تفریق عورتوں، بچوں اور مردوں کی سرکاری سرپرستی میں نسل ګشی کی گئی، جو بچ گئے انہیں غلام بنا دیا گیا، آپ نے اکثر تصوریں دیکھیں ہوں گی جس میں انسانی zoo دکھایا گیا ہوتا ہے یہ اب حقیقی تصویریں ہیں۔ ان غلاموں سے بدترین کام کروائے جاتے، خواتین sex slave بنا دی گئیں۔

 بیسویں صدی میں جب انسانی حقوق کی تحریکیں چلیں تو اک حد تک قتل ہونے سے یہ لوگ بچ گئے مگر ان کی شناخت مٹانے کے لئے ان کے بچوں کو مخصوص مشنری اسکولوں میں زبردستی ڈالا گیا، جہاں ان کا کلچر، ان کی زبان، ان کا مذہب اور ان کے نام تک چھین لئے گئے۔ آج بھی امریکی ریاست ورجینیا میں چلے جائیں وہاں آپ کو ریڈ انڈین دوسرے درجے کے شہری کے طور پہ زندگی گزارتے ہوئے ملیں گے، جہاں ہر تیسری لڑکی جنسی زیادتی کا شکار ملے گی، پورے یورپ میں سب سے زیادہ خودکشی کا رجحان آپ کو یہاں ملے گا، بیروزگاری، غربت اور بیماری عام ملی گی۔

چند روز قبل سندھ کی ثقافت کا دن جوش و جذبے سے منایا گیا۔ شاھ عبدالطیف کی محبت کرنے والی یہ دھرتی بھی ہزاروں سال کی تاریخ رکھتی ہے، اک عظیم ورثہ اور شاندار ثقافت کی حامل رہی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی قوم تب تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک اپنی زبان، ادب اور ثقافت کو محفوظ اور آئندہ مسلوں میں منتقل نہ کرے۔ اور اسی نظریہ کو لے کر آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سندھ دھرتی سے محبت کرنے والوں نے یہ دن منایا۔ یقیناً رنگ و نور کی محفلیں سجائی گئیں، بچوں، خواتین اور جوانوں نے سندھ کے ثقافتی لباس زیب تن کیے، اجرک اور سندھی ٹوپی جو ثقافت کا اہم مظہر ہے بچوں اور جوانوں نے زیب تنکیے رکھا، سندھ کی حفاظت کی قسمیں کھائی گئیں اور سندھی ہونے پہ فخر کا اظہار کیا گیا۔

مگر کیا سندھ کو بھی ہم پہ فخر ہے؟ کیا ہم نے سندھ کے بیٹے ہونے کا حق ادا کیا ہے؟ کیا ہم آنے والی نسلوں کو اک زرخیز ورثہ دے کر جارہے ہیں؟ غور طلب باتیں ہیں۔ سندھ آج لہولہان ہے، لاکھوں بچے اسکول سے باہر ہیں، اسکول میں بنیادی سہولتیں نہیں، نہ ہی تعلیم جدید تقاضوں کے مطابق ہے، تعلیم حاصل کر بھی لیں تو اقرباپروری، میرٹ کا قتل اور روزگار انہیں خودکشی یا بغاوت پہ مجبور کرتا ہے خواتیں کو معاشی، سماجی اور جنسی طور پہ ہراساں کرنے جیسے واقعات عام ہیں، غریب کسانوں کے حالات بدتر ہیں، انصاف کے لئے سالوں عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں، صحت کے شعبے کی بہی تباہ حال حالت ہے، بیماری اور غذائی قلت سے بچے مر رہے ہیں 80 فیصد سندھ کو پینے کہ لئے آلودہ پانی میسر ہے امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جارہا ہے اور ہر تیسرا فرد نفسیاتی امراض کا شکار ہے

بتائیں ان حالات میں سندھ کو ہم پہ فخر ہوگا؟ دنیا بہت آگے نکل گئی ہے۔ ہمیں بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اک وژن کی ضرورت ہے۔ Human investment پہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ثقافتی دن منانے سے کئی قدم آگے بڑھنا ہوگا، کام کرنا ہوگا ورنہ ہمارا حال بھی ریڈ انڈین کی طرح ہوگا اور ہم تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائیں گے۔

 

Hyderabad-Sindh-in-1890

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).