تحریک انصاف کے 100 دن


ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھے سے
مری رفتار سے بھاگے ہیں بیاباں مجھ سے

غالبؔ کا یہ شعر تحریک انصاف کی حکومت پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سو روز کا تجزیہ ان دونوں موضوع خاص اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اول دن سے جس چیز کا فقدان تحریک انصاف کی حکومت میں نظرآیا ہے وہ سنجیدگی اور حکومتی معاملات چلانے کی مہارت ہے اور جس چیز کی بہتات نظر آئی وہ ہے لطائف اور مضحکہ خیز حرکات کی برسات۔ پہلے پندرہ روز تو یہ ہی طے ہوتا رہا کہ وزیراعظم کے شب و روز کہا ں بسر ہو نگے؟ آیا وہ وزیراعظم ہاؤس میں رہیں گے، ملٹری سیکرٹری کے گھر میں رہیں گے یا بنی گالا میں۔ اس کے بعد مسئلہ یہ آیا کہ وہ دوران سفر پروٹوکول لیں گے یا نہیں۔ پھر انہوں نے ہیلی کاپٹر کا استعمال شروع کیا جس پر سفر کی لاگت 55 روپے فی کلو میٹر بتائی گئی اور ان کے ہر مصاحب نے اپنی بساط کے مطابق اس پر طرہ لگائی۔

اس کے بعد ہیلی کاپٹر کی سواریوں کا مسئلہ درپیش آیا کہ وزیراعظم کے ساتھ ان کا کتا بھی شریک سفر رہتا تھا لیکن جب میڈیا پر یہ خبر نشر ہوگئی تو ایک مخصوص گاڑی بنوائی گئی جو ”کتا صاب“ کو بنی گالا سے وزیراعظم ہاوس لے جاتی اور لے آتی رہی۔ امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ٹیلیفون کال کے معاملے پر حکومت کو جس سبکی کا سامنا ہوا اور فرانس کے صدر کی ٹیلیفون کال پر جو رویہ وزیراعظم کی جانب سے سامنے آیا وہ سفارتی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔

ریاست کو کس ماڈل کے تحت چلایا جائے گا؟ تحریک انصاف شدید ابہام کا شکار ہے، انتخابات میں وہ ریاستِ مدینہ کے ماڈل کے نفاذ کا عندیہ دیتے رہے۔ چین کے دورے کا پروگرام بنا تو چین کے نظام کو اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کردیا لیکن تحریک انصاف یہ بھول گئی کہ چین کی ترقی سوشلزم کے نفاذ کے باعث ممکن ہوئی اور ملائیشیا گئے تو ملائیشیا کے ماڈل پر لٹو ہوگئے۔

اپنے بیانات اور بدلتے سیاسی مؤقف پر عمران خان نے یو ٹرن لینے کی جو توجہیہ اور تعریف پیش کی وہ بھی سننے کے لائق ہے :
پاپوش میں لگادی کرن آفتاب کی
جو بھی بات کی خدا کی قسم لاجواب کی

تحریک انصاف کے لیے سب سے بڑا امتحان معیشت کی بحالی ہے۔ اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان ہر حکومت کو آئی ایم ایف اور غیر ممالک سے قرض لینے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے لیکن آج ان کی حکومت آئی ایم ایف اور غیر ممالک کے سامنے قرض کی بھیک کے لیے سرگرداں ہے۔ سیاست میں آنے سے قبل عمران خان کی اہلیت ایک بہترین چندہ اکٹھا کرنے والے کی تھی جس پر انھیں ناز بھی بہت تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے یہی چندہ ماڈل ملک کے لیے بھی مناسب سمجھا۔

ان کا خیال تھا کہ تارکین وطن ان کی اپیل پر ڈالروں کے انبار لگا دیں گے اور غیر ممالک میں پڑا کالا دھن بھی وہ پاکستان لے آئیں گے، لیکن ان کا یہ خیال حقیقت نہ بن سکا۔ معیشت کے مسائل کے لیے ان کے پاس اسد عمر کی کل میں گوہر نایاب موجود ہے، جو ابھی تک کوئی مربوط پالیسی دینے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ایک طرف اسد عمر پاکستان آئی ہوئی آئی ایم ایف کی ٹیم کو مطمین نہ کرسکے اور ان کے وزیر اعظم سعودیہ عرب اور چین سے بے مراد لوٹے۔ ملکی معیشت ہر گئے دن کے ساتھ ابتر ہوتی جارہی ہے لیکن وزیراعظم اور ان کی کابینہ قوم کو سبز باغ دکھانے میں مصروف ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ 2013 کے انتخابات کے بعد اس کی تمام تر توجہ نواز حکومت کی مخالف پر رہی ہے، ملک کے اقتصادی، خاجی اور داخلی مسائل کے لیے کو موثر پالیسی نہ وہ پہلے بنا سکی تھی نہ اب بن پارہی ہے۔

وطن عزیز کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں ہمیشہ بالادست طبقات سے تعلق رکھنے والے چالاک سیاسی افراد نے مسائل کو بنیاد بنا کر پسماندہ افراد کے جذبات کا خوب استحصال کیا اور جوشیلی سیاست (پاپولسٹ سیاست) کو رواج دیا۔ سماجیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ پاپولسٹ سیاستدان ریاستی ذمہ داریوں اور شفاف حکمرانی کے لیے نا اہل ہوتے ہیں جس کے سبب اقتدار کے ایوانوں اور اداروں میں تصادم پیدا ہوتا ہے جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

ایسا پاکستان کب وجود میں آئے گا جب امن، عوام کی خوشحالی اور ترقی میسر آئے گی؟ اس راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ریڈیکل زرعی اصلاحات کانافذ نہ ہونا ہے دوسری رکاوٹ ہمارا مروجہ معاشی نظام ہے جو عالمی معاشی نظام سے منسلک اور اس کا محتاج ہے۔ ہمارے یہاں یہ سیاسی فکر موجود ہے کہ گڈگورننس سماجی تبدیلی کا دوسرا نام ہے لیکن اس کا کوئی انتظام ابھی تک نہیں ہوسکا ہے کہ جاگیردارانہ رویوں کے ہوتے ہوئے گڈ گورننس کیسے ممکن ہے؟ ملک کی سلامتی، خوشحالی اور ترقی کے لیے اس سوال کا جواب تحریک انصاف سمیت ہر سیاسی جماعت کو تلاش کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).