میاں نواز شریف کی خاموشی، خوف یا حکمت؟


پانامہ کیس میں حکومت کے خاتمے کے چند دن بعد نواز شریف پارٹی اجلاس میں شرکت کے لئے مری سے اسلام آباد روانہ ہوئے تو اس وقت تک نواز شریف کے حامیوں میں ایک اداسی بھری دہشتناک خاموشی پھیلی ہوئی تھی لیکن جوں ہی اس کی گاڑی اسلام آباد سے چند کلومیٹر دور بھارہ کہو کے مقام پر پہنچی تو غیر متوقع طور پر عوام کا ایک سیلاب اُمڈ آیا۔

جس نے کئی عشرے پہلے لاہور ریلوے سٹیشن پر بھٹو کے استقبال کی یاد تازہ کر دی۔ اب آنے والے شب و روز کا منظرنامہ بھی تقریباً اس جیسا ہی تھا۔ اس چھوٹے سے قصبے میں دیوانہ وار استقبال نے مشکل ترین ایّام میں میاں صاحب کے حوصلے کو بھی بڑھایا اور آئندہ کے لئے اس کی مناسب منصوبہ بندی اور پالیسی کو بھی واضح کیا۔

موٹروے یا جہاز کے ذریعے لاہور واپسی قصہ پارینہ بن گئیے اور وہ جی ٹی روڈ پر عوام کے درمیان نکل آئے۔ تو اس کی گاڑی چیونٹی کی رفتار سے رینگنے لگی کیونکہ تاحد نظر سر ہی سر تھے، یہیی پر نواز شریف اپنا تاریخی بیانیہ ووٹ کو عزت دو عوام کے سامنے رکھا، جسے ایک مبالغہ آمیز مقبولیت بھی ملی۔

اس بیانیے کے عقب سے تاریخ اور مستقبل دونوں جھانک رہے تھے۔

یہی وہ وقت تھا جب نواز شریف ایک طرف مقبولیت کے عروج پر پہنچ گئے تھے تو دوسری طرف کلثوم نواز کی جان لیوا بیماری روز روز عدالتی پیشیوں اور پورے خاندان پر مقدمات نے انہیں شدید پریشانیوں سے دو چار کیا لیکن وہ ڈٹے ہوئے تھے حتٰی کہ لندن میں اپنی شریک حیات کو اس نے قریب المرگ حالت میں چھوڑا اور للکارتا ہوا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہوا اپنی بیٹی سمیت لاہور ائیرپورٹ پر اُترا۔

جہاں سے انھیں حراست میں لیا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب وہ مزاحمت کی علامت بن کر اُبھر رہا تھا۔ اور نہ صرف اپنے حامیوں بلکہ دشمنوں تک سے خراج سمیٹنے لگا۔

اس کے لاکھوں کارکن اپنے سینے چوڑے اور سر اُٹھا کر کہتے کہ یہ ہوتی ہے لیڈر شپ، یہ ہوتی ہے دلیری تو درحقیقت ان کے بد ترین سیاسی مخالفین کے پس بھی کوئی ٹھوس جواب یا توانا دلیل نہ ہوتی!

لیکن پھر کیا ہوا جیل کے اندر نواز شریف کی خاموشی پراسرار اور طویل ہوتی گئی تاہم میاں صاحب کی مظلوم اسیری اور کلثوم نواز کی شدید بیماری نے اس خاموشی پر کوئی سوال اُٹھانے نہیں دیا تاہم کلثوم نواز کی موت پر نواز شریف اور مریم نواز کی عارضی رہائی اور بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت منظور ہونے کے بعد خیال کیا جا رہا تھا کہ جوں ہی تعزیتی سلسلہ رُک گیا اور میاں نواز شریف شدید جذباتی کیفیت سے نکل آئے تو اس بار پہلے کی نسبت زیادہ جارحانہ موڈ میں دکھائی دیں گے۔

اس کے پارٹی کارکن اور دوسرے جمہوریت پسند طبقات پوری طرح چارجڈ اور تیار تھے کہ نواز شریف کے بیانئے کی جدوجہد سڑکوں پر لے آئیں لیکن یہ خاموشی ایک عرصے سے خوف کی بکل مارے بزدلی کی چوکھٹ پر بیٹھی دکھائی دیتی ہے۔

کوئی اس خاموشی کو کتنے ہی دلفریب معنوں کے لبادے پہنانے کے جتن کیوں نہ کرے لیکن سچ تو بہرحال یہی ہے کہ یہ سکوت کسی لیڈر کے شایان شان ہر گز نہیں کیونکہ پچیس جولائی کو پاکستانی تاریخ کے سب سے دھاندلی زدہ الیکشن ہوئے۔ قانون اور آئین کو مذاق بنایا گیا، سیاسی مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان بھینسوں، کٹوں اور چوزوں تک محدود ہے، میڈیا کو تاریخ کے بد ترین سنسر شپ کا سامنا ہے۔ اقتصادی صورتحال دن بدن بگڑتی جارہی ہے۔ پنجاب میں اکثریت رکھنے والی جماعت کو روندا گیا، مہنگائی ایک وباء کی صورت اختیار کر چکی ہے، ڈالر روپے کو ہڑپ کرتا جارہا ہے۔ یوٹیلیٹی اشیاء کو پر لگ گئے ہیں، بجلی اور گیس عوام کی پہنچ سے دور ہوتے جارہے ہیں۔

ترقی پاتے منصوبے ٹھپ ہوگئے ہیں، بے روزگاری ایک خون آشام بلا کی مانند گلی گلی کا رُخ کرنے لگی ہے اور سیاسی منظرنامے پر مداری اور بہروپیے اپنی چرب زبانی سمیت چھایے ہوئے ہیں لیکن ملک کی سب سے طاقتور سیاسی جماعت کے سربراہ اور تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف ان حالات میں خاموش ہیں۔

کیا لیڈر ایسے حالات اور ایسے ہی منظرنامے میں ایسی خاموشی کے متحمّل ہو سکتے ہیں؟
کیا ہوچی من، منڈیلا، خمینی، اردوان اور ہوگو شاویز پُر آشوب حالات میں خاموش ہو گئے تھے؟
کیا اُنھوں نے مصلحت اور پسپائی اختیار کی تھی؟
نہیں ہرگز نہیں بلکہ وہ بد ترین حالات اور ناسازگار موسموں میں ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تھے۔

وہ اپنے عوام کے جذبوں کی زبان اور احساسات کے ترجمان بن گئیے تھے، تبھی تو اپنے عوام ان سے محبت نہیں بلکہ عقیدت رکھتے، ان سے سیاسی رفاقت نہیں بلکہ اُنھیں پُوجتے رہے۔

ان کی کامرانی کا راز ہی یہی تھا کہ اُنھوں ں نے اپنے لوگوں کو مایوسی میں چھوڑ کر پسپائی کا راستہ اختیار نہیں کیا، خاموشی کا لبادہ نہیں اوڑھامیں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا ہوں کہ میاں نواز شریف پسپائی کے راستے پر چل نکلے ہیں کیونکہ نہ تو یہ کسی کی خواہش ہے، نہ ہی تمنّا لیکن حقائق بہرحال یہی ہیں کہ میاں نواز شریف اس وقت ایک سہمی ہوئی اور خوفزدہ خاموشی کا نہ صرف شکار ہیں بلکہ اُنھوں نے اپنے پیروکاروں اور جمہوری جدوجہد کے حامی سیاسی کارکنوں کو ایک مایوس فضا کی جانب دھکیل دیا ہے، جو کسی طور قابل ستائش نہیں۔

اگر میاں نواز شریف کو اپنے آپ پر اعتماد نہ تھا یا با الفاظ دیگر دباؤ کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں تھی تو چاہیے تھا کہ وہ وہی سیاست کرتے جو اسّی کے عشرے میں شروع کی تھی اور بہت دیر تک اس کا لطف لیا تھا۔ انقلابی بننے کی ضرورت کیا تھی؟ اور ہاں اپنے کارکنوں کو تنہا چھوڑ کر خاموشی اختیار کرنا ایسے حالات میں ایک سیاسی بزدلی تو ہو سکتی ہے، حکمت ہرگز نہیں۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).