کچھ ذکر نیپالی شاعرہ، ناول نگار اور کالمسٹ جھمک کماری کا


یہ کہانی ایک ایسی بہادر لڑکی کی ہے جو نہ بول سکتی ہے۔ اور نہ چل سکتی ہے۔ مگر قدرت نے اس کو بہترین ذہن دیا ہے۔ اپنی سوچوں کو دوسروں تک پہنچانے کے لیئے وہ قلم کو پاؤں کے انگوٹھے اور انگلی کے ساتھ پھنسا کر تیزی سے کاغذ پر لکھتی ہے۔ اس جرات مند اور ذہین ادیبہ کا نام ہے جھمک کماری۔جس نے نیپال کا سب سے بڑا ادبی ’’مدن پالیکر ایوارڈ (2011) حاصل کیا ہے۔ اس نے نیپال کی صدر کے ہاتھوں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کی ہے۔

جھمک نیپال کے پہاڑوں پر واقع ایک گاؤں (دھنی کٹا) کے ایک غریب گھر میں پیدا ہوئی۔ وہ پیدائشی طور پر ایک بیماری سیر برل پالسی میں مبتلا تھی۔ یہ بیماری دماغ اور عصبی نظام کو متاثر کرتی ہے جس کا اثر جسمانی حرکت، سیکھنے، سننے، دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیتوں پر ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے جھمک کماری شدید معذوری کے ساتھ پیدا ہوئی۔ ہاتھوں سے مفلوج ہونے کے علاوہ نہ وہ بات کر سکتی تھی اور نہ ہی جسم کو زیادہ حرکت دے سکتی تھی۔اس کے ابا کو پڑوس والوں نے مشورہ دیا کہ وہ اسے دریا میں پھینک دیں تاکہ وہ مر جائے۔ مگر اس کے ابا کو یہ گوارا نہ تھا۔ اس کے والدین کو عرصے تک اس بات کا اندازہ ہی نہ ہوا کہ ان کی بچی میں سننے، سمجھنے اور سوچنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے۔اس کی معذوری کی وجہ سے انہوں نے اس کو اسکول بھیجنا بھی ضروری نہ سمجھا۔ اس کی چھوٹی بہن اسکول تو جاتی تھی لیکن جھمک بے بسی سے اپنے بستر پر پڑی اسے دیکھتی رہتی۔ وہ کسی سے یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ اس کو بھی تعلیم کا شوق ہے۔ البتہ جب اس کی بہن اسکول سے آ کراپنا سبق دھراتی تو وہ بھی اسے دل ہی دل میں یاد کر لیتی۔

نیپالی زبان کے حروفِ تہجی سیکھ کر ایک دن اس نے اپنے پاؤں سے زمین پر لکھنے کی ہمت کی۔ یہ پہلا حرف جو اس نے اپنے پاؤں کی مدد سے مٹی پر لکھنے کی کوشش کیــ وہ لفظ ’’ کا‘‘ تھا۔ اس نے خوشی میں یہ حرف اتنی بار لکھا کہ اس کے پاؤں سے خون نکلنے لگا۔ جھمک کا جی چاہتا تھا کہ لوگ دیکھیں کہ اس نے زندگی میں پہلی بار کچھ لکھا ہے۔ لیکن وہ بولنے سے قاصر تھی۔ لوگ اس کے بنائے ہوئے حروف پر چلتے رہے اور اور وہ مٹ گیا۔ مگر جھمک نے ہار نہ مانی۔ پھر جب اس کے والدین نے اس کو پاؤں سے لکھتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے غصہ سے اسے مارا۔ ان کے مذہب میں پاؤں سے زمین پر لکھنا نحوست کی علامت تھی۔ جھمک کماری کی بہن کو اس کے شوق کا اندازہ ہو گیا۔ وہ اسے چوری چھپے لکھنا سکھاتی اور ماں باپ سے پیسے چرا کر کاغذ اور قلم لا کر اسے دیتی۔ آخر کار اس کے والدین نے ہار مان لی۔ جھمک کماری کا وہ یادگار دن تھاجب اسکی ماں نے اس کولکھنے کے لیئے کاغذ لا کر دیا۔

Littérateur Jhamak Kumari Ghimire being conferred on with the honorary doctorate from Mid-Western University in Kathmandu, on September 5, 2016.

چھوٹی سی عمر سے جھمک کماری کا خیال اس کی دادی نے رکھا۔ کھانا کھلانا، نہلانا دھلانا، کپڑے بدلنا غرض وہ اسکا ہر کام کرتیں۔ ان کے مرنے کے بعد جھمک کماری کا کوئی خیال رکھنے والا نہ رہا۔ ہندو رسم کے مطابق کوئی غیر شخص مرنے والوں کے گھر والوں کو تیرہ دن تک نہیں چھو سکتا۔ یہ ہی وہ زمانہ تھا کہ زندگی میں پہلی بار جھمک کماری نے اپنے آپ پاؤں کی مدد سے کھانا کھانا دیکھا۔غرض تیرہ دنوں کے بعد وہ اپنے اوپر انحصار کرنا سیکھ چکی تھی۔

اپنا پہلا حرف پاؤں سے لکھنے کے بعد جھمک کماری نے قلم اور علم کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اس نے تیس سال کی عمر تک درجن بھر کتابیں لکھیں جن میں شاعری کی چار کتابیں، افسانوں کے دو مجموعے، اخباری کالم اور مضامین کے مجموعہ کے علاوہ اس کی مدن پالیکر ایوارڈ یافتہ کتاب ــ’’زندگی کانٹا ہے یا پھول ‘‘شامل ہے۔ 1998 سے آج تک اس کو بارہ ایوارڈ مل چکے ہیں۔ وہ اپنا خرچ خود اٹھاتی ہے۔ اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ہے۔ لوگ اس کا انٹرویو لینے آتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اسکے گاؤں کی حالت بہت بہتر ہو گئی ہے۔جہاں اب نہ صرف ٹیلی فون بلکہ انٹرنیٹ بھی آ گیا ہے۔کمپیوٹر آنے کے بعد سے جھمک کماری اپنے پاؤں کی مدد سے کمپیوٹر پر اپنے مضامین اور شاعری ٹائپ کرتی ہے۔

President Bidya Devi Bhandari confers the honorary PhD degree on writer Jhamak Kumari Ghimire, September 5, 2016.

اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد معذور افراد کو خود اعتمادی اور خود انحصاری کا سبق دینا ہے۔وہ ایک اخبار میں کالم لکھتی ہے۔ وہ عورتوں کی آزادی کی بھی حامی ہے۔ اور سمجھتی ہے کہ ان کو اپنے حقوق کے لیئے خود کھڑا ہونا ہو گا۔ اس کا پیغام دنیا کے تمام لوگوں کے لیئے خود انحصاری اور محنت کا ہے کہ اس پرعمل کر کے تکلیفیں دور ہو سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).