وادئی نیلم کی قدیم شاردہ یونیورسٹی


شاردہ وادی نیلم کا ایک چھوٹا سا ٹاؤن ہے جو کہ دریائے نیلم کے کنارے آباد ہے۔ وادی نیلم جو پہاڑوں، سرسبز درختوں، آبشاروں، اونچے نیچے راستوں، قیمتی پتھر اور بے شمار چھپے خزانوں کی سر زمین ہے۔ وادی نیلم کی طرف جانے والے تمام راستے ہی دشوار گزار ہیں۔ شاردہ ٹاؤن مظفر آباد سے 136 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جو سیاحوں کے قیام کے لیے ایک خوبصورت مقام بھی ہے۔ شاردہ جانے کے لیے راستے خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہیں بارش اور لینڈ سلائیڈنگ سے یہاں کے باسیوں کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔

یہاں آرمی کے افسر موجود ہوتے ہیں جوہرنئے آنے جانے والوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آتے ہیں۔ راستہ پوچھنے پر مکمل آگاہی اور معلومات فراہم کرتے ہیں۔ راستے میں نظر آنے والی آبشاریں اور دریائے نیلم کا دلکش منظر لوگوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرتا ہے۔ کشمیر کی خوبصورتی میں شاردہ ٹاؤن چار چاند لگا دیتا ہے۔ اسے آزاد کشمیر کی جنت کہا جائے تو بیجانہ ہو گا۔ مشہور مسلمان مؤرخ البیرونی نے اپنی کتاب الہند۔ میں اس کا ذکر کیا ہے۔

سری نگر کے جنوب مغرب میں شاردہ واقع ہے اہلِ ہند اس مقام کو انتہائی متبرک سمجھتے تھے۔ بیساکھی کے موقع پر ہندوستان سے لوگ یاترا کے لئے آتے تھے۔ شاردہ یونیورسٹی کا پرانا نام شاردہ پتھ تھا۔ پتھ قدیم سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی ایسی جگہ یا نشست کے ہیں جس کو تکریم سے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ شمالی ہندوستان سمیت اکثر جگہوں پر یہ لفط عام مذہبی اداروں کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ کنشک اول (نیپال کا شہزادہ) کے دور میں شاردہ وسط ایشیاء کی سب سے بڑی تعلیمی وتدریسی درسگاہ تھی۔

یہاں بدھ مت کی باقاعدہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تاریخ، جغرافیہ، ہیت، منطق اور فلسفہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس درسگاہ کا اپنا رسم الخط تھا جو دیوتاگری سے ملتا جلتا تھا اس رسم الخط کا نام شاردہ تھا۔ اسی مناسبت سے موجودہ گاؤں کا نام شاردہ ہے۔ اس عمارت کو کنشک اول نے 24 ء تا 27 تعمیر کروایا تھا۔ یہ عمارت شمالاً جنوباً مستطیل چبوترے کی شکل میں بنائی گئی۔ عمارت کی تعمیر آج کے انجینئرز کو بھی حیرت میں ڈال دیتی ہے۔

اس کے درمیان میں بنایا گیا چبوترہ خاص فنِ تعمیر کا نمونہ پیش کرتی ہے اس کی اونچائی تقریباً سو فٹ ہے۔ چاروں طرف دیواروں پر نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ جنوب کی طرف اس کا دروازہ ہے۔ عمارت کے اوپر چھت کا نام و نشان باقی نہیں۔ مغرب میں اندر داخل ہونے کے لئے 63 سیڑھیاں ہیں۔ یہ سیڑھیاں بھی پتھروں کی تراش خراش سے بنائی گئی ہیں۔ ان سیڑھیوں کے ساتھ ایک رسی باندھی گئی ہے تا کہ لوگوں کو چلنے اور اُترنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ان 63 سیڑھیوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ ( 63 ) کا عدد جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں مذہبی حیثیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی کچھ قبائل تریسٹھ زیورات پر مشتمل تاج ہاتھی کو پہناتے ہیں اور پھر اس کی پوجا کرتے ہیں۔ بدھ مت کے عقائد سے ملتی جلتی تصاویرآج بھیاس میں نظر آتی ہے۔ ان اشکال کو پتھر میں کشید کر بنایا گیا ہے۔ اس عمارت میں ایک تالاب بھی ہوتا تھاجو آج موجود نہیں۔ امراضِ جلد کے متاثر لوگ اس میں غسل کرتے اور شفا پاتے تھے۔

کیونکہ یہاں آنے والا پانی دو کلو میٹر کے فاصلے سے سلفر کی آمیزش والے تالاب سے لایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ کشمیر کے پہاڑوں کے دامن میں شردھ نامی لکڑی کا حیرت انگیز بت تھا جس کے پاؤں کو چھونے سے انسان کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا تھا۔ نیز ہندو عقائد کے تحت اشتامی کی مقدس رات کے نصف پہر کو شاردہ تیرتھ کا مرکزی حصہ کسی غیبی طاقت کی مدد سے جھومتا تھا۔ بحوالہ (ابوالفضل آئین اکبری) شاردہ سے کشن گھاٹی تک کا سارا علاقہ آباد تھا۔

کشن گھاٹی مرکزی عمارت سے تین کلو میٹر جنوب میں واقع ایک پہاڑی کا نام ہے۔ جسے مقدس تصور کیا جاتا ہے یہاں ایک لمبی غار تھی جس میں ایک بت بنوایا گیا تھا اس کے نیچے مُردوں کو جلایا جاتا تھا اس راکھ کو کشن گنگا (موجودہ دریائے نیلم ) میں بہا دیا جاتا تھاشاردہ قلعہ کے پس منظرسے لوگوں کی اکثریت ناواقف ہے۔ آج یہ عمارت ایک پرانے کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے اور عدم توجہ کا شکار ہے۔ اس کی تعلیمی اور تدریسی حیثیت ایک خواب لگتی ہے۔

علم وادب میں اس کی شہرت دور دور تک پھیلی۔ گجرات کے راجہ جیا سہا نے اس یونیورسٹی کے عالم فاضل شخص ہیما چندراکو اپنے دربار سے منسلک کیا اس علم دوست انسان نے راجہ گجرات سے التجا کی کہ وہ انسائیکلوپیڈیا تیار کرنا چاہتا ہے جس میں مذہب، علم زباندانی کے آفاقی اصول اور عالمی ادب جیسے مضامین پر تحقیق ہو نی چاہیے۔ یہ یونیورسٹی کسی زمانے میں ہندو مت اور بدھ مت کی عظیم درسگاہ رہی۔ آٹھ قدیم زبانوں میں لکھے گئے گرائمر کی کتب کی دستیابی مطلوب تھی۔

ان نایاب کتب کی دستیابی کے لئے ہیما چندرا نے بادشاہ سے گزارش کی کہ یہ کتب صرف اور صرف شاردہ یونیورسٹی کے ذخیرہ کتب سے ہی مل سکتی ہیں اس پر بادشاہ نے ان نایاب کتب کے حصول کے لئے اعلیٰ سرکاری وفد کشمیر کی راج دھانی پری وایود (موجودہ سر ی نگر ) روانہ کیا۔ ریاست کشمیر پہنچ کر اس وفد نے شاردہ دیوی کے مندر میں حاضری دی اور شاہی دستور کے مطابق مسوات گجرات پہنچائے گئے جس کی مدد سے ہیما چندرا کے نام سے کتاب تیار کروائی گئی۔

ہندوستان سے آج بھی کئی لوگ اس مندر کو دیکھنے آتے ہیں آزاد کشمیر پہنچ کر شاردہ یونیورسٹی پہنچنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ اس یو نیورسٹی کو ایک تاریخی حیثیت حاصل رہی ہے۔ شاردہ کے رہنے والے مقامی لوگ خود بھی اس یونیورسٹی کے بارے میں بتاتے ہیں۔ جو سیاح وہاں جاتے ہیں انہیں کہا جاتا ہے شاردہ یوینورسٹی دیکھنے ضرور جائیں وہاں پہنچ کر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی میں کیسے اس مندر کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا شاردہ پہنچ کر تاریخی مقام کا نظارہ ایک دلفریب نظارہ لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).