یہ معاملہ ہے دل کا!


گزشتہ سال کے وسط کی بات ہے، خبر ملی کہ عامر جعفری بھائی کو ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے۔ دکھ بھی ہوا اور حیرانی بھی۔ دکھ اس اس بات کا کہ ایسے بذلہ سنج نوجوان کو پینتالیس سال میں یہ مرض کیسے لاحق ہو گیا؟ اور حیرانی اس بات کی کہ ان کو یہ مرض آخر کیوں لاحق ہوا ہے۔ بدن ویسے ہی منحنی سا ہے۔ سگریٹ کی عادت چھو کر نہیں گزری، مشروبات کی فہرست بھی کبھی چائے، سکنجبین اور لسی سے آگے نہیں بڑھی تو آخر ایسا کیونکر ہو گیا۔

شاید اس مرض کا تعلق طرزِ زندگی سے ہوتا ہے۔ اس معاملے میں عامر بھائی مکمل طور پر خطا وار ہیں۔ ان کی زندگی ایک چھلاوے کی زندگی ہے۔ ابھی آپ کے پاس بیٹھے تعلیم کی زبوں حالی پر گفتگو ہو رہی تو ایک گھنٹے کے بعد کسی یونیورسٹی میں یکساں نظام تعلیم کے حق میں تقریر ہو رہی۔ اس سے فارغ ہو ئے تو ائر پورٹ روانہ ہو گئے۔ دبئی میں کوئی فنڈ ریزنگ ہو رہی ہے۔ سفر میں لیپ ٹاپ پر لندن میں متوقع ڈونرز سے ملاقات کی پریزنٹیشن تیار ہو رہی ہے۔

لطف اس بات کا ہے کہ دبئی پہنچ کر فون کر کے وہ آپ کو کسی نئے پاکستانی ریسٹورنٹ کی مسالا کڑاہی اور تڑکہ دال کا قصہ سنانا نہیں بھولتے۔ اس قدر تیز رفتار زندگی نے انہیں اس مرض کا شکار کیا لیکن انہیں دل کا یہ واحد مرض نہیں ہے۔ چلیں آپ کو تفصیل سے عامر جعفری کا تعارف کرواتے ہیں۔ انیس سو پچانوے کا ذکر ہے لاہور میں چند دوست سید وقاص جعفری، ڈاکٹر اشتیاق احمد، ڈاکٹر محمد مشتاق اور عامر چیمہ بیٹھے پاکستان کے دیہی علاقوں میں تعلیم کی زبوں حالی پر بحث کر رہے تھے۔

ان بچوں کے مستقبل کا سوگ منایا جا رہا تھا کہ جو اسکول جانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ چونکہ ان دوستوں میں سے کوئی بھی سیاست دان نہیں تھا۔ اس لئے انہوں نے اس مسئلے سے دنیا کو روشناس کروانے کے لئے نہ احتجاجی جلوس نکالے، نہ اخبار میں ایڈیٹر کے نام خط لکھے نہ کوئی دھرنا دیا اور نہ ہی سڑکوں پر ٹائر جلا کر ٹریفک بلاک کی۔ یہ دوست پریکٹیکل لوگ تھے۔ انہوں نے ایک ٹرسٹ کی بنیاد رکھی اور کچھ پیسے خود جوڑے اور کچھ دوستوں کی مدد سے ایک ایجوکیشن ٹرسٹ کا آغاز کیا۔

ان چند نیک دل دوستوں میں سے ایک صاحب وقاص جعفری تھے جو عامر جعفری کے بڑے بھائی ہیں۔ ابتدا میں پورے پاکستان میں بائیس اسکول کھولے گئے۔ ان اسکولوں کو ”ایک کمرہ اور ایک استاد“ کی بنیاد پر کھولا گیا۔ ایک کمرہ گاؤں والوں کی مدد سے مفت حاصل کیا گیا اور استاد کو ایک قلیل تنخواہ پر نوکری دی گئی۔ وہی استاد اسکول میں پانی کا بھی انتظام کرتا، گھنٹی بھی بجاتا، تعلیم بھی دیتا اور پرنسپل کے فرائض بھی سرانجام دیتا۔

پہلی کلاس کے بچے داخل کیے گئے اور یوں بائیس اسکول شروع ہو گئے۔ یہ اسکول ان علاقوں میں کھولے گئے جہاں سرکاری اسکول کی سہولت موجود نہیں تھی۔ بچوں کی فیس پچاس روپے طے ہوئی جس کے بدلے بہترین تعلیم اور تربیت کا وعدہ کیا گیا۔ جو بچہ یہ فیس بھی نہ ادا کر سکے اس کی فیس معاف بھی کر دی گئی۔ والدین سے صرف ایک فرمائش کی گئی کہ بچہ اسکول سے چھٹی نہ کرے۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب عامر جعفری لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں پڑھ رہے تھے۔

اس کے بعد عامر اعلیٰ تعلیم کے لئے بریڈ فورڈ چلے گئے وہاں سے اکنامکس اور پروجیکٹ مینجمنٹ میں ایم ایس کیا اور وطن واپس آکر احباب کی درخواست پر ایجوکیشن ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ان کو اس سے بہتر نوکریوں کی آفر ملی مگر چونکہ تعلیم کا موضوع ان کے دل کے بہت قریب تھا اس لئے کم تنخواہ قبول کی اور دن رات ایجوکیشن ٹرسٹ کے تحت پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے جت گئے۔ ابھی تک اس کالم میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔

بہت سے پاکستانی اچھا سوچتے ہیں، نیک کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، کسی فلاحی کام کا آغاز بھی کرتے ہیں مگر کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ اب اگلی سطریں ذرا دل سنبھال کر پڑھیے گا کیونکہ جب معاملہ دل کا ہو تو انقلاب آ ہی جاتے ہیں۔ تو سنیے صاحب جس نیک کام کا آغاز چند دوستوں نے انیس سو پچانوے میں تھوڑی سی مالی مدد سے کیا تھا اس ایجوکیشن ٹرسٹ کے تحت چلنے والے اسکولوں کی تعداد اب پورے پاکستان میں سات سو ہوگئی ہے۔

اس ٹرسٹ کے ذریعے اس وقت پچانوے ہزار بچے تعلیم پا رہے ہیں اور پانچ ہزار اساتذہ اس مشن میں ایجوکیشن ٹرسٹ کے ہم رکاب ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں اس سے بڑا انقلاب کیا ہو سکتا ہے۔ مگر بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ سنتے جائیے۔ دیہی علاقوں میں معذور بچوں کی تعلیم کے لئے ایجوکیشن ٹرسٹ نے رورل انکلوسو ایجوکیشن پروگرام کا آغاز کیا۔ ا سکولوں کو معذوربچوں کی سہولت کے مطابق قابل عمل بنایا اور ان بچوں کو نارمل طلباکے ساتھ تعلیم دے کر نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کو زندگی کے دھارے میں شریک بھی کیا۔ اب تک ایسے پندرہ سو معذور طلباؤ طالبات اس سہولت سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ اگر کبھی آپ کو اپنی مصروف زندگی میں سے چند لمحے میسر آئیں تو یو ٹیوب پر اس ایجوکیشن ٹرسٹ کی ڈاکومینٹری ضرور دیکھیے گا۔ آنکھیں تفاخر سے بھر نہ آئیں تو کہیے گا۔

یہی نہیں اس ٹرسٹ نے تعلیم کے میدان میں ایک اور منفرد کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ہاں بچیوں کو تعلیم دینے کا رواج نہیں ہے۔ اس ٹرسٹ کے تحت ایسے علاقوں میں جہاں اقلیتوں کی کثرت ہے وہاں ایسے اسکول کھولے گئے جہاں مختلف مذاہب کے بچے بنا کسی خوف کے اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ ان سات سو اسکولوں میں سے ذہین ترین بچوں کے لئے ایک علیحدہ سہولت بھی موجود ہے۔ جو بچہ بہت ہونہار ہے اس کے لئے لاہور میں ایک ریزیڈنشل پروجیکٹ موجود ہے جہاں اس کو تعلیم اور رہائش دی جاتی ہے اور اس کے تمام تر اخراجات ادارہ اٹھاتا ہے۔

ابھی حکومت پاکستان کی مدد سے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے مظفر گڑھ میں دو سو پچاس اسکول بنائے ہیں۔ جن میں تیئس ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔ مگر مسئلہ یہ کہ صرف اس ایک ڈسٹرکٹ میں تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد تین لاکھ ہے۔ پاکستان میں تعلیم سے محروم رہ جانے والے بچوں کی مجموعی تعداد ڈھائی کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ اس مقصد کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

عامر جعفری تو اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مگر اب حکومتوں کو بھی میدان عمل میں آنا پڑے گا۔ تقاریر اور تنقید بہت ہو چکی۔ اب تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا وقت ہے۔ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے اس مسئلے کوحل کرنا ہو گا۔ رہا معاملہ عامر جعفری کا تو میں نے شروع میں ہی عرض کر دیا تھا کہ ان کا معاملہ دل کا ہے۔ وہ دل سے اس تعلیمی انقلاب کے لئے کمر باندھے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ بہت نایاب ہوتے ہیں۔ ان کی قدر زمانے کرتے ہیں۔ ان کے دل درد سے معمور ہوتے ہیں۔ انسانیت کا یہ درد ان کو خدا کی جانب سے ودیعت ہوتا ہے۔ اگر میری بات کا یقین نہ آئے تو ایک دفعہ عامر جعفری سے مل لیں آپ بھی ان کے دل کے درد کی محبت میں گرفتار ہو جائیں گے۔
بشکریہ جنگ۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar