زراعت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے


پاکستان میں ایک بہت بڑی اکثریت زراعت سے وابستہ ہے اور زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن بدقسمتی سے کسی بھی حکومت نے کسان دوست پالیسی اختیار نہیں کی یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ہمیں گندم بھی باہر سے منگوانی پڑی ہے۔ زرعی مداخل پر ٹیکس بھاری قیمتوں نے ہمیشہ کسان کو نقصان ہی پہنچایا ہے، اگر ماضی کی حکومتیں سنجیدگی اور ہمدردی کے ساتھ زراعت دوست پالیسی بنا کر نافذ کر دیتی تو آج نہ صرف کسان خوشحال ہوتا بلکہ قومی معیشت بھی زبوں حالی کا شکار نہ ہوتی۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کسان اگر گندم پیدا کرتا ہے تو اسے مہنگا اور غیر معیاری بیج خریدنا پڑتا ہے، فصل کاشت کرنے کے لئے زمین کی تیاری کے لئے اس کے پاس جدید مشینری کی سہولت نہیں ہوتی اور یہ زرعی مشینری اگر اسے دستیاب بھی ہوجائے تو اس کے اخراجات اس کے بس میں نہیں ہوتے۔ پھر چونکہ بجلی مہنگی ہوتی ہے اس لیے بھاری قیمت پر اسے پانی ملتا ہے اس کے بعد کھادوں کا نمبر آتا ہے یوریا اور ڈی اے پی اسے مناسب قیمت پر دستیاب نہیں ہوتی، اسی طرح کیڑے مار دوائیں بھی یا تو مہنگی ہوتی ہیں یا پھر غیر میعاری، کسی نہ کسی طرح فصل تیار ہوجاتی ہے تو اس کی مناسب قیمت ہی نہیں ملتی۔ اکثر مڈل مین کے ذریعے کسانوں کا استحصال ہوتا ہے، جب کسان کو گندم میں نقصان ہوتا ہے تو وہ کپاس کی طرف آتا ہے لیکن یہاں بھی مسئلہ مناسب قیمت کا آجاتا ہے۔

کسان سوچتا ہے کہ چلیں گنا کاشت کر لیں، جب فصل تیار ہوتی ہے تو شوگر ملز خریدنے سے انکار کر دیتی ہیں یا پھر ریٹ وہ دیتی ہیں جس سے لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔ میرے ایک دوست بتارہے تھے کہ گذشتہ سال پے درپے فصلوں میں نقصان کے بعد میرے بھائی نے گنا کاشت کیا تھا، جب فصل تیار ہوئی تو ریٹ 70 روپے فی من لگا۔ جبکہ لاگت 72 روپے فی من تھی۔ یہ صورت حال دیکھ کر میرے بھائی نے گنے کی فصل کو آگ لگا دی۔ جب یہ صورت حال ہو تو ملک میں زراعت کیسے ترقی کرے گی، جب کسان کو فصل کی مناسب قیمت ہی نہ ملے تو وہ کیوں پھر گندم، کپاس اور گنا کاشت کرے گا، وہ پھر ایسی فصل کاشت کرے گا جس سے اسے منافع ہو، اس کے بچے دو وقت کی روٹی اور سال میں دو جوڑے کپڑے و جوتے پہن سکیں۔ گھر میں بیٹھی بیٹی کے ہاتھ عزت سے پیلے کیے جا سکیں۔ بچے سکول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ اگر کئی ماہ کی محنت و مشقت کے بعد یہ سب حاصل نہیں ہو سکتا تو پھر کسان کاشت کاری چھوڑ کر کوئی اور کام کرے گا اور اراضی بنجر ہوگی یا پھر اسے رہائشی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اگر واقعی معیشت کو ترقی دینا چاہتی ہے تو پھر اسے زراعت پر بھر پور توجہ دینا ہوگی۔ کسان کو عزت دینا ہوگی۔ کسان کی عزت یہی ہے کہ اسے تمام زرعی ضروریات مناسب نرخوں پر ملیں اور اس کی فصل کی قیمت اتنی ہو کہ اس کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ اشرافیہ کو نوازنے والی پالیسیوں کو روکا جائے اور کسان نواز پالیسیاں بنائی جائیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ طبقہ اشرافیہ کی ساری آن بان کسان کے دم سے ہے۔ جس دن کسان نے ہاتھ کھڑے کر دیے اشرافیہ کا سارا کروفر دھڑام سے زمیں بوس ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).