انتقالی مرحلہ


جزیرہ عرب کے تپتے صحرا میں بسنے والے خانہ بدوش بدو وں میں تباہی وبربادی کے تمام عناصر بدرجہ اتم موجود تھے، ان کامعاشرہ جہالت اور اندھیروں کی خندقوں میں معاشرہ گرفتار تھا۔ دعوت محمدی ﷺکا پرنور سورج طلوع ہواتو محض 23 سالوں میں یہی قوم دنیا کی بہترین تہذیب کے علمبردار بن کر اقوام عالم کے لیے قابل اقتدا مثال بن گئے۔ یہ 23 سال اس قوم کا انتقالی مرحلہ تھا، پر امن، تیز اور مو¿ثر، جس سے صرف جزیرہ عرب کے باسی ہی نہیں، تمام اقوام عالم مستفید ہوئی۔

اٹھاروی صدی عیسوی میں یورپ اور بالخصوص فرانس بھی انتقالی مرحلے سے گزرا، انقلاب فرانس برپا ہوا جس کو جدید تاریخ کا آغاز سمجھاجاتا ہے۔ مطلق العنان بادشاہت کے جابرانہ نظام اور کنیسہ کی اجارہ داری سے مقہور عوام نے بغاوت کی، یہ انتقالی مرحلہ کا آغاز تھا، 1400 برس قبل پیش آنے والے انقلاب کے برعکس فرنگی سو سال خون کی ہولی کھیلتے رہے، 10 لاکھ جانیں ضائع ہوئی، ایک مکمل صدی غیر یقینی برقرار رہی، یہ انتقالی مرحلے کی دشواریاں تھی، نتیجہ پھر بھی مثالی نہیں تھا، یورپ مطلق العنان بادشاہت کے ظلم سے مطلق آزادی کی گمراہیوں اور اخلاقی پستیوں میں منتقل ہوگئے۔

وطن عزیز آج انتقالی مرحلے سے گزررہا ہے، یہ کہاجائے کہ انتقالی مرحلے کا آغاز ہے تو غلط نہ ہوگا۔ وطن عزیز میں گزشتہ 70 سالوں سے جاری و ساری نظام غریب کش رہاہے، حکومتی ایوان سے سڑک کے کنارے تک، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ رہا ہے، طاقتور یعنی، اصحاب اقتدارووردی، مالدار تاجر اور بڑے سرکاری عمال کے باہمی گٹھ جوڑ اور مفادات کے تحفظ کا خمیازہ عوام بھگتتے رہے ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں، کیونکہ عوامی خدمت کے ادارے طاقتور کی خدمت میں مصروف ہے۔

حالیہ دنوں کا واقعہ جس کے نتیجے میں وفاقی وزیر کو مستعفی ہونا پڑا ہمارے ملک میں طاقتور اور غریب کے تعلق کو واضح کرتا ہے، معمولی چپقلش پر وزیر موصوف کے خدام نے غریب پڑوسی پر مبینہ طور پر تشدد کیا، پھر گرفتار کروایا، وزیر صاحب کا دل نہیں بھرا تو آئی جی پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، آئی جی کے رویہ سے مطمئن نہیں ہوئے تو وزیر اعظم کے ذریعے آئی جی کو فارغ کروادیا، خوش قسمتی اس غریب پڑوسی کی کہ معاملے کی نشاندہی ہوئی اور عدالت نے کارروائی کی، ورنہ وطن عزیز میں ایسے اور اس سے زیادہ سنگین نوعیت کے ہزاروں واقعات پیش آتے ہیں، اور کسی کان پر جو ں تک نہیں رینگتی، مظلوم کال کوٹھڑی میں سڑتا ہے یا بعض اوقات جان کی بازی ہی ہارجاتا ہے، جبکہ طاقتور ایوانوں اور ہیڈکوارٹرز میں مزے کرتے ہیں۔

عوام اس صورتحال سے تنگ آ چکے ہیں، اور تبدیلی کے خواہش مند ہیں، خوش قسمتی سے ریاستی اداروں نے عوامی ارادے کو پہلے ہی بھانپ لیا اور تبدیلی کے عمل میں شراکت دار بننے کا فیصلہ کیا، تبدیلی کے عمل کاآغاز کرنے کے لیے ریاستی اداروں اور عوام کے باہمی اتفاق سے حکومت تشکیل دی گئی، اب یہ حکومت عوامی امیدوں کا مرکز ہے، وزیر موصوف کا جو قصہ ذکر کیا گیا اس سے عوام کے اعتماد کوٹھیس پہنچا ہے، لیکن عوام کی اکثریت اب بھی پر امید ہے کہ بوسیدہ نظام ختم کیا جائے گا۔

انتقالی مرحلہ مشکل بھی ہوتا ہے اور حساس بھی، اس میں ایسے موڑ بھی آتے ہیں کہ عوام پرانے نظام کی دوبارہ بحالی کے متمنی ہوجاتے ہیں، چھوٹی غلطی بھی اثرات کے اعتبار سے تباہ کن ہوتی ہے، لہذا ہمیں اس مرحلہ میں انتہائی سوچ سمجھ کر، منصوبی بندی کے تحت اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا، تاکہ تبدیلی کے عمل کی تکمیل آسانی اور پر امن طریقے سے ممکن ہو۔

عوام چاہتے ہیں کہ اس مرتبہ وقتی حل نہ ہو، مکمل نظام تبدیل ہو، ریاست عوامی مفاد کو مد نظر رکھے، کمزور طبقے کو ریاستی سرپرستی اور طاقتور کو احتساب کا خوف ہوں، اور یہ تمام امور متعلقہ ادارے آزادی سے سر انجام دیں، کوئی ادارہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی کریں نہ سیاستدان کسی ادارے کے معاملات میں، ہر کوئی اپنے حدود میں اپنا کام کریں، تاکہ ہم ”جگاڑیہ“ نظام کے بجائے فلاحی ریاست قائم کریں۔

عوامی امنگوں کو انتقالی مرحلہ میں مد نظر نہ رکھا گیا، تو خدشہ ہے کہ عوام نظام سے مکمل مایوس نہ ہوجائیں، کیونکہ مایوسی کے بعد کے مراحل خطرناک ہوتے ہیں، اور معاملات قابو میں نہیں رہتے، اور سب کا نقصان ہوتا ہے۔ خدا کریں کہ ایسا وقت نہ آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).