پاکستان کا کھیلوں کی دنیا میں تابناک ماضی


بیسویں صدی کے وسط میں جب مملکتِ خداداد دنیا کے نقشے پہ ابھرا تو اس وقت کھیلوں کی دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کا راج تھا۔ مگر کھیلوں کی بنیادی سہولیات نہ ہوتے ہوئے بھی پاکستان نے اپنے قیام کے تھوڑے عرصے بعد ہی اپنی صلاحیتوں کا ایسا لوہا منوایا جس نے تمام عالَم کو دنگ کردیا۔ بات کی جائے کھیلوں میں پاکستان کے ماضی کی تو یہ کافی حسین لمحات اور باوقار کارگردگی سے بھرا ہوا ہے۔ موجودہ دور کے بر عکس ماضی میں پاکستان کا شو کیس کئی اہم عالمی تمغوں، ٹرافیوں اور ایوارڈز سے بھرا رہا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان نے متعدد کھیلوں میں اپنا آپ دنیا کو ثابت کیا اور عالم کو ابھرتی ہوئی ”سپورٹس نیشن“ کا پیغام دیا۔

بیسویں صدی کے 80 اور 90 کی دہائی میں 4 کھیلوں میں پاکستان سرِ فہرست شمار ہوتا تھا اور ان کھیلوں میں پاکستان نے متعدد فتوحات سمیٹیں اور ایسے کار ہائے نمایاں انجام دیے جن کی وجہ سے یہ چار کھیل جن میں اسکواش، ہاکی، کرکٹ اور ٹیبل ٹینس شامل ہیں پاکستان کی وجہِ شہرت بنے۔

80 اور 90 کی دہائی پاکستان میں کھیلوں کے حوالے سے وہ دور تھا جو کہ جو کہ تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھا جاچکا ہے۔ یہ وہ دور تھا جس میں دوسری ٹیموں کی نسبت پاکستان کے پاس وہ سہو لیات نہ تھیں جو دیگر ترقی یافتہ ممالک کو میسر تھیں مگر شاید وو جذبہ ہی تھا جس نے دلوں کو موہ لیا اور تمام عالم کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ دنیا میں پاکستان کا مثبت پہلو ابھر کے سامنے آیا۔ گلی ڈنڈا، کبڈی اور ملاکھڑا جیسے مقامی کھیل میں تو پاکستان میں کھیلے جاتے تھے مگر پاکستان نے دنیا کو ان کے اپنے ایجاد کردہ کھیلوں میں شکست دی۔ جن میں اسکواش سرِ فہرست ہے۔

اسکواش:

اسکواش میں پاکستان کی کار گردگی شاندار ماضی کی عکاسی کرتا ہے اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے 17 مرتبہ ورلڈ اوپن، اور 12 مرتبہ برٹش اوپن اپنے نام کیا جو کہ کسی بھی قوم کی جانب سے سب سے زیادہ کا ریکارڈ ہے۔ اس شاندار کارگردگی کہ پیچھے ایک جاندار کھلاڑی کابہت بڑا ہاتھ ہے۔ جہانگیر خان مردِ بحران جس نے 1981 سے 1986 تک بغیر کوئی میچ ہارے تسلسل کے ساتھ 555 میچوں میں اپنے حریفوں کو شکست کا مزہ چکھایا۔

1986 کے بعد ایک اور کھلاڑی جان شیر خان نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کی فتوحات میں مزید اضافہ کیا۔ 1981 سے لے کر 1996 تک اسکواش میں پاکستان نہ قابلِ تسخیر سمجھاگیا۔ جہانگیر خان اور جان شیر خان کی ساجھے داری کا پاکستان کوبہت فائدہ ہوا۔ مگر ان دونوں کھلاڑیوں کی کھیل کو خیر آباد کہنے کی بعد اسکواش میں پاکستان کہیں کھو سا گیا اور پاکستان کا تمغات سے بھرا ہوا شو کیس آہستہ آہستہ خالی ہوتا گیا۔

ہاکی:

پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے مگر آج کسی سے یہ بات معلوم کی جائے تو شاید ہاکی کی موجودہ کارگردگی دیکھتے ہوئے اسے یہ بات مذاق لگے مگر ماضی پاکستان کی بے مثال فتوحات کو ظاہر کرتا ہے۔ اپنے قیام کے چند سالوں بعد ہی پاکستان کو اولمپکس کھیلنے کا موقع ملا۔ 1956 کے اپنے پہلے ہی اولمپکس میں پاکستان نے حریفوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجائی۔ اس کے بعد کچھ اس طرح حریفوں پر اپنی دھاک بٹھائی اولمپکس میں 3 طلائی تمغے، 4 عالمی کپ (ورلڈ کپ) جو کے ایک ریکارڈ ہے، ایشین گیمز میں سب سے زیادہ فتوحات کا عالمی ریکارڈ ساتھ ساتھ پہلی ایشین ٹیم بنی جس نے تین مرتبہ چیمپئن ٹرافی اپنے نام کی مسلسل ٹاپ 10 میں شامل رہنا پاکستان کی کارگردگی کا ثبوت ہے اس دوران پاکستان ہاکی میں نام ور کھلاڑی پیدا ہوئے جن میں وسیم احمد، محمّد ثقلین اور سہیل عبّاس اوردیگر شامل ہیں جنہوں نے کافی ریکارڈ بنائے وسیم احمد نے سب سے زیادہ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی، سہیل عبّاس نے 348 گولز کر کے ہاکی میں سب سے گولز بنانے کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔

اس کے علاوہ پاکستان نے ہاکی میں بے شمار کارنامیں انجام دیے مگر پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا پاکستان ہاکی بھی تنزلی کا شکار ہوتی گئی اور تاریخ میں پہلی مرتبہ 2014 کا ورلڈ کپ تک کے لئے کولیفائی نہ کر سکی۔ اور یہ پاکستان ہاکی کے لئے کافی شرمناک بات ہے کے جس ٹیم نے ماضی میں اتنے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا ہو۔ اکثر ماہرین ہاکی میں پاکستان کی تنزلی کی وجہ ہاکی کھیل میں ہونے والے مسلسل قواعد و ضوابط کی تبدیلی گراؤنڈ میں گھاس کی جگہ آسٹروٹرف اور دیگر عوامل کو ظاہر کرتے ہیں جس نے پاکستان ہاکی کو ”ریڈ کارڈ“ دکھایا مگر اس میں کچھ کوتاہیاں ہماری بھی ہیں آج پاکستان ہاکی اپنے برے دور سے گزر رہا ہے مگر ماضی جیسی فتوحات کا اب بھی متلاشی ہے۔

کرکٹ :

پاکستان بھر میں پسند کیے جانے والا مقبول ترین کھیل کرکٹ ہے۔ موجودہ دور میں تو ہر میچ میں بچہ بچہ اس کھیل کے متعلق اپنی ماہرانہ رائے دیتا ہے جس سے اس کھیل کی مقبولیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ماضی میں ٹیم پاکستان گوروں کے ایجاد کردہ اس کھیل کو اس طرح جذبے سے کھیلتی تھی کہ حریفوں کے لئے وبالِ جان بن جاتی تھی بات کی جائے پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارگردگی کی تو 1992 کا ورلڈ کپ 1992 کا ورلڈ کپ پاکستان کرکٹ ٹیم نے جس جذبے سے جیتا اس کی مثال نہیں ملتی۔ 1999 میں بھی ٹیم پاکستان نے رنر اپ کی حیثیت سے ورلڈ کپ کا اختتام کیا کرکٹ میں پاکستان کی کارگردگی نپی تلی رہی۔ 2009 میں ٹی 20 ورلڈ جیتا اس کے بعد 2017 کی آخری چیمپئن ٹرافی بھی اپنے نام کی اپنی اسی کار گردگی کی وجہ سے ٹیم پاکستان کو ”unpredictable“ (ناقابلِ پیش گوئی) کا خطاب ملا۔

کرکٹ میں پاکستانی کھلاڑیوں متعدد ریکارڈ بھی اپنے نام کیے جیسے تیز ترین گیند کرانے کا ریکارڈ پاکستانی کھلاڑی شعیب اختر کے پاس ہے اس کے علاوہ جاوید میاں داد، عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس اور شاہد آفریدی جیسے کھلاڑیوں نے کرکٹ میں بہت سے ریکارڈ بنائے اور توڑے۔ ٹیسٹ کرکٹ کی بات کی جائے تو اب تک کھیلے گے 415 ٹیسٹ میچز میں 134 میں پاکستان سر خرو ہوا جب کہ 123 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور 158 مقابلے بغیر کسی فیصلے کے ختم ہوئے 1992 کے ورلڈ کپ کے بعد سے اب تک ٹیم پاکستان ایک روزہ عالمی کپ میں ٹرافی کی منتظر ہے۔

ٹیبل ٹینس :

ایک وقت تھا جب پاکستان ٹیبل ٹینس ٹیم ہاکی ٹیم کے مقابلے میں بیرونِ ملک زیادہ دورے کیا کرتی تھی۔ جس کا نتیجہ بھی سب کے سامنے تھا۔ 1984 اور 1990 کے ایشیا کپ ایونٹ میں پاکستان روایتی حریف بھارت سے آگے رہا۔ ٹیبل ٹینس جس کا دوسرا نام پنگ پونگ ہے پڑوسی ملک چین سے شروع ہوا 80 اور 90 کی دہائی میں نمبر 6 پوزیشن پہ ہونا حقیقتاً بہت صبر آزما گھڑی تھی کیونکہ اس وقت سر فہرست 5 نمبروں پہ چین، جنوبی کوریا، شمالی کوریا، جاپان، اور تائیوان کی اجارہ داری تھی۔ پاکستان ٹیبل ٹینس کا سنہری زمانہ اور سید محمّد سبطین دونوں ہم معنی ہیں۔ یہ وہ شخص تھا جس نے پاکستان میں ٹیبل ٹینس کو نئی راہ دی اور پاکستان کی فتوحات میں کلیدی کردار ادا کیا۔

پاکستان نے اپنے ماضی میں ان کھیلوں کی بدولت بہت نام کمایا 80 اور 90 کی دہائی اس حوالے سے پاکستان کے لئے نہایت ہی شاندار رہے ہیں اس دور میں کھیلوں میں پاکستان اپنے عروج پہ تھا۔ مگر اس کے بعد کھیلوں میں پاکستان تنزلی کا شکار ہوتا گیا۔ ان عوامل پہ گور کیا جائے کہ کیسے ہمیں اتنی پستی کا شکار ہونا پڑا تو ان وجوہات میں ملک میں عالمی مقابلوں کا نہ ہونا ہے جس کا براہِ راست اثر پاکستان کی کارکردگی پہ پڑا ہے

سیکورٹی خدشات کے پیشِ نظر کوئی ٹیم ملک میں آنے کے لئے رضا مند نہیں ہوتی۔ ماضی میں تو ٹیمیں پاکستان سے کھیلنا اپنے لئے اعزاز سمجھتی تھیں آج ہمیں ان کی منتیں کرنی پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ علاقائی سطح سے کھلاڑیوں کا فقدان بھی اہم وجہ ہے۔ اکثر باصلاحیت کھلاڑی پسند اور ناپسند کی بھینٹ چڑہھ جاتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان میں ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے گراؤنڈ لیول سے اپنا اور ملک کا نام روشن کیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں بھی کھیلوں کی سرگرمیاں محض نام کی رہ گئیں ہیں۔

پاکستان عالمِ کھیل میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے جو کہ مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن ہر گز نہیں جس کے لئے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ بات اہم ہے کہ حکومتی سطح پہ اقدامات کیے جائیں نئے میدان بنائے جائیں اور قبضہ مافیا سے میدان چھوڑا کر دوبارہ آباد کیے جائیں تاکہ نوجوانوں کو اپنی کارگردگی دکھانے کا موقع آسانی سے میسر آسکے۔ عالمی سطح کے ایونٹ کرائیں جائیں تاکے غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل کر اپنی غلطیوں کا اندازہ اور کھیل میں نکھار لاسکیں۔ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ کھیل کی طرف راغب کرنے کے لئے ہر چھوٹے بڑے شہر میں باقاعدگی کے ساتھ ایونٹ کرائیں جائیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ میرٹ کو موقع دیا جائے اگر ہم یہ سب کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انشا اللہ وہ وقت دور نہیں جب وطنِ عزیز میں کھیل اور کھلاڑی ترقی کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).