عمران خان خوف سے باہر نکلیں


وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے اپنی حکومت کی نئی حکمت عملی کی بات کی ہے تاہم کراچی کے دورہ کے دوران وہ اس پالیسی کے خد و خال واضح کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ وزیر اعظم اور ان کی حکومت کی یہی غیر واضح پالیسی دراصل ملکی معیشت کے لئے گھاٹے کا سودا بنی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اور ان کی حکومت ملک کی بہتری چاہتے ہیں اور معاشی طور سے استحکام لا کر یہاں روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ویلفئر اسٹیٹ کی بنیاد رکھی جاسکے۔ تاہم وزیر اعظم کو اس بات کا یقین کرنا ہوگا کہ وہ ملک کے حالات کو بہتری کی طرف گامزن کرنے کی خواہش رکھنے والے تنہا شخص نہیں ہیں اور نہ ہی حب الوطنی اور عوام دوستی پر ان کی پارٹی کی اجارہ داری ہے۔ اس وقت ملک جن حالات سے دوچار ہے، ان میں ملک کے ہر باشندے، ادارے اور سیاسی پارٹی کی یہ خواہش ہے کہ ملک کے اقتصادی حالات درست ہوں اور وہ اپنی موجودہ مشکلات پر قابو پا کر ترقی کے سفر پر گامزن ہو سکے۔

تحریک انصاف کو انتخابات سے پہلے شاید اپنی کامیابی کا اتنا یقین نہیں تھا جتنا اس کے لیڈر سیاسی سونامی لانے کا دعویٰ کرتے رہے تھے۔ اسی لئے نہ تو اس نے کسی قابل عمل معاشی پالیسی کا خاکہ تیار کیا تھا اور نہ ہی اسے یہ یقین ہے کہ ملک کے دیگر سیاسی عناصر بھی ملک کی بہتری کے لئے اتنا ہی درد رکھتے ہیں جتنا تحریک انصاف یا اس کے لیڈر محسوس کرتے ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے ملک کی دوسری دونوں بڑی پارٹیوں کے ساتھ سیاسی اختلافات کو ذاتی عناد اور دشمنی کا درجہ دے دیا ہے۔ عمران خان کہتے تو یہی ہیں کہ ان کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں ہے لیکن وہ بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے جد و جہد کررہے ہیں تاکہ معاشرہ میں بہتری کی بنیاد رکھی جاسکے۔ لیکن یہ بات کرتے ہوئے ان کی باتوں اور باڈی لینگوئج میں جو غصہ اور تناؤ ہوتا ہے، اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ان کی لڑائی سیاسی نہیں بلکہ ذاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ ملک میں وسیع تر سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش میں ناکام ہیں ۔ لمحہ موجود میں انہیں بالواسطہ طور سے جو سیاسی حمایت حاصل ہو سکتی ہے، وہ اسے ببانگ دہل مسترد کرتے ہیں اور پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم کو متحرک کرنے اور سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو ساتھ لے کرچلنے سے خوف کھاتے ہیں۔ عمران خان کو لگتا ہے کہ اگر انہوں نے سیاسی مقاصد کے لئے مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی تو اس کے بدلے میں انہیں ایسی مراعات دینا پڑیں گی جس کی وجہ سے بدعنوانی کے خلاف ان کی مہم متاثر ہوگی۔ یہ خوف انہیں پارلیمانی تعاون کا راستہ اختیار کرنے سے روکتا ہے اور وہ بار بار یہ کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔ حالانکہ نہ عمران خان این آر او دینے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ ان کے چاہنے یا نہ چاہنے سے سیاسی لیڈروں کے خلاف مقدمات کے فیصلے متاثر ہو سکتے ہیں۔

کوئی نہات احمق سیاسی لیڈر یا عاقبت نااندیش سیاسی پارٹی ہی قومی مفاد کے کسی منصوبہ میں تعاون کے بدلے میں قانونی مراعات حاصل کرنے کی بات کر سکتی ہے۔ اس لئے قومی بحران کی موجودہ حالت میں سیاسی تعاون حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ صرف عمران خان کا خوف ہی ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں جس پر وہ سب پارٹیوں کو اتفاق رائے پر آمادہ کرسکیں ۔ اس لئے ان کا سیاسی کے علاوہ معاشی بیانیہ صرف بیان بازی اور خواہشات کے اظہار تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ جلد یا بدیر عمران خان کو یہ جان لینا ہو گا کہ معیشت صرف خواہشوں کی بنیاد پر درست نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے ٹھوس اور واضح اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے آج کراچی کے دورہ کے دوران تاجروں اور سرمایہ کاروں کے وفود سے ملاقاتیں کیں اور یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ ان کی حکومت تاجر برادری اور سرمایہ داروں کو سہولتیں اور تحفظ فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف کی حکومت سرمایہ کاری کے حوالے سے نیا رویہ اختیار کررہی ہے۔ ہم تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری حکومت تاجروں اور سرمایہ کاروں کو تحفظ بھی فراہم کرے گی۔ ہم مارکیٹ میں استحکام لانا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے مجھے تاجروں کے مشورہ کی ضرورت ہے‘۔

 تاجروں کے وفود روایتی طور پر کسی بھی حکمران سے مل کر چاپلوسی اور خوش آمدی لب و لہجہ میں بات کرتے ہیں۔ کراچی کی ملاقاتوں میں بھی سب نے عمران خان کے وزیر اعظم بننے پر مبارکباد دی لیکن اس حکومت کے آتے ہی مارکیٹ میں جو بے یقینی اور عدم اعتماد کی کیفیت پیدا ہوئی، اس کے بارے میں کسی نے رائے دینے اور تحفظات کا اظہار کرنے کا حوصلہ نہیں کیا۔ عمران خان کی شخصیت اور مزاج بھی ایسا ہے کہ وہ خود اپنی بات کو حتمی اور فیصلہ کن سمجھتے ہیں اور رائے سننے یا دوسرے کا نقطہ نظر جاننے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ اسی لئے کراچی کی یہ ملاقاتیں بھی روٹین کے معاملہ سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں۔ تاجروں نے ٹیکس نیٹ بڑھانے، غیر قانونی سرمایہ کی ترسیل کی روک تھام کے لئے حکومتی کوششوں یا خواہشوں کی تائد کی اور وزیر اعظم ان ملاقاتوں سے مالی شعبہ کے بحران کے بارے میں کوئی نیا نکتہ تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

موجودہ حکومت ملکی معیشت کو لبرل اکانومی کی شکل دینا چاہتی ہے جہاں دولت کمانا معیوب نہ سمجھا جائے اور سرمایہ کار بے خوف ہوکر دولت لے کر ملک میں آئیں اور اس سے منافع حاصل کرنے میں آزاد ہوں۔ اس کا اظہار آج کراچی کی ملاقاتوں میں بھی ہؤا ہے جسے عمران خان اپنی حکومت کا نیا رویہ قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی سرمایہ داری کی حوصلہ افزائی کے لئے کام کرتی رہی تھی۔ وزیر اعظم کے طور پر نواز شریف کے آخری دور میں اگر تحریک انصاف اقتدار کی جدوجہد میں دھرنا اور احتجاج کی سیاسی کو فروغ دے کر پاکستانی منڈیوں کے بارے میں سرمایہ کاروں کی بے یقینی میں اضافہ کرنے کا باعث نہ بنتی تو شاید ملکی معیشت کی صورت حال بالکل مختلف ہوتی۔

اب اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کے کارپرداز صورت حال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کا کوئی لائحہ عمل سامنے لانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ حکومت کو اس بات کا خوف لاحق ہے کہ اس کے کسی اقدام سے عوام ناراض نہ ہوجائیں اور اس کی سیاسی ساکھ کو نقصان نہ پہنچے۔ لیکن دگرگوں معیشت کی اصلاح کے لئے مشکل سیاسی فیصلے کرنا بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کی بے عملی اور وزیر خزانہ اسد عمر کی بے یقینی کی وجہ دراصل عمران خان کا یہ خوف بھی ہے کہ معاشی اقدامات کرتے ہوئے کہیں ان کی مقبولیت متاثر نہ ہو۔ حالانکہ اگر وہ ملکی معیشت کے لئے یوں ہی بے یقینی کا سبب بنے رہیں گے تو اس کے نتیجہ میں عوام کی مشکلات میں اضافہ اور حکومت کی مقبولیت میں کمی لازمی بات ہے۔

چند روز پہلے واشنگٹن پوسٹ کی نمائیندہ لیلی وے ماؤتھ نے عمران خان سے انٹرویو کے دوران معیشت کے بارے میں جو سوال بھی کیا،اس کا ان کے پاس کوئی واضح اور دو ٹوک جواب نہیں تھا۔ یا وہ صاف گوئی سے کام لینا نہیں چاہتے تھے۔ یہی رویہ منڈیوں میں بے یقینی اور ملکی معیشت پر دباؤ کا سبب بن رہا ہے۔ عمران خان یہ بتانے میں ناکام رہے کہ ان کی حکومت کو ادائیگیوں کا توازن درست کرنے کے لئے کن ملکوں سے کتنا سرمایہ ملا ہے اور وہ آئی ایم ایف سے پیکیج لینے کے لئے کیا اقدام کررہے ہیں۔ بیرونی امداد کے حوالے سے وے ماؤتھ نے پوچھا کہ سعودی عرب نے تو آپ کو چھے ارب ڈالر کا پیکیج دیا ہے، یہ بتائیے کہ چین اور متحدہ عرب امارات سے آپ کو کیا حاصل ہؤا۔ اس پر عمران خان کا جواب تھا کہ ہمیں امداد ملی ہے لیکن دینے والے اسے خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔

معاشی لین دین کے معاملات کبھی خفیہ نہیں رہتے لیکن جب ملک کا وزیراعظم اس حوالے سے پراسراریت کو قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا منفی اثر ہونا لازم ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف سے قرض لینے کے معاملہ میں بھی عمران خان نے بے یقینی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم آئی ایم ایف کی شرائط قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جب واشنگٹن پوسٹ کی نمائیندہ نے کہا کہ کیا آپ بچت کا راستہ اختیار کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ بعض شرائط سے عام لوگ متاثر ہوں گے۔ حالانکہ معاشی استحکام کا راستہ اختیار کرتے ہوئے حکومت کوئی بھی کوشش کرے اس کی قیمت بہر حال عام آدمی کو ہی ادا کرنا پڑتی ہے۔ لیکن عمران خان اسے تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔

ملک کو مالی بحران سے نکالنے کے لئے حکومت کو آئی ایم ایف سے قرض لینے کے علاوہ ان اقدامات کا واضح اعلان کرنا چاہئے جو وہ سرمایہ داروں کے تحفظ کے لئے کرنے والی ہے۔ اس سلسلہ میں فوری طور سے قانون سازی کا عمل بھی شروع ہونا چاہئے۔ صرف اسی صورت میں موجودہ بحران کو بہتری کے سفر میں تبدیل کیا جاسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali