کرکٹ، لگاؤ، اور پاکستان


جو لوگ کھیل کے اندرونی پراسیس سے واقف ہوتے ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ مختصر عرصے کے واسطے اچھی پرفارمنس دینے اور طویل عرصے تک اچھا کرتے رہنے میں کیا فرق ہے۔ اور یہ کہ دونوں کے لئے جداگانہ حیثیت میں کس نوعیت کی محنت درکار ہوتی ہے۔

پاکستان چیمپئنز ٹرافی 2017 جیتا تو ہر پاکستانی کو دل سے خوشی ہوئی سب ناچے جھومے۔ انھی دنوں ناقدین خصوصاً بھارت کے مبصرین یہ کہہ کر پاکستان کی جیت کو ڈسکس کر رہے تھے کہ چیمپئنز ٹرافی ایک مختصر دورانیے کا ٹورنامنٹ ہوتا ہے۔ اس میں آپ کو اچانک سے ملا مومینٹم کام آجاتا ہے اور اگر یہ عین صحیح وقت پر جاگ جائے تو آپ کو ٹورنامنٹ جتوا دیتا ہے۔

پاکستان کی کرکٹ ٹیم اکثر ایسا ہی کرتی ہے۔ مومینٹم بن جائے تو کسی کو نہیں چھوڑتی۔ اور اگر نہ بنے تو سب سے چھوٹی ٹیم سے بھی ہار جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ 1992 کا ورلڈ کپ لے لیں۔ آخری چار میچوں میں مومینٹم پِیک پر گیا اور وہی چار میچ بشمول ناک آؤٹ سیمی فائنل اور فائنل ہمیں ورلڈ چیمپئن بنوا گئے۔

1999 کے ورلڈ کپ پر آ جائیں۔ شاذ و ناذر ہی ایسا ہوا ہو گا کہ پاکستان نے کسی بڑے ٹورنامنٹ کا آغاز ہی بڑا زبردست فاتحانہ انداز میں کیا ہو۔ ٹیم گروپ اسٹیج میں بڑے نام کے کھلاڑیوں پر مشتمل ویسٹ انڈیز، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ جیسی ٹیموں کو ہرا کر اپنے پہلے چاروں میچز جیت چکی تھی۔ آسٹریلیا والے میچ کے بعد تو سنیل گواسکر نے یہ دعویٰ کر دیا تھا کہ پاکستان کو اب ورلڈ چیمپئن بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

لیکن پھر اچانک ہمارے کھلاڑیوں کو ان کی خود میں رچی بسی عادت یاد آ گئی کہ ہم لگاتار جیتتے کیسے رہ سکتے ہیں۔ کہیں ہارنا بھی تو چاہیے، تو انہوں نے اس کے لئے آخری لیگ میچ کے حریف بنگلا دیش کو چن لیا۔ سپر سکس مرحلے میں پاکستان کو تین میں سے ایک ہی میچ جیتنا لازم تھا تو ایک ہی جیتے، زمبابوے سے۔ جنوبی افریقہ سے اچھا مقابلہ کر کے ہارے تو بھارت کو تو سیریس ہی نہیں لیا۔ کارگل جنگ کے آس پاس کھیلے گئے اس میچ کو وسیم اکرم اگلے میچوں کی پریکٹس کے طور پر لینے کے موڈ میں تھے۔ ہو گئی پھر اچھی پریکٹس۔ حالاں کہ آؤٹ آف فارم بھارت کو ہرا کر اُسے ورلڈ کپس کی تاریخ میں کبھی نہ ہرا پانے کی بد نامی سے نکلنے کا وہ سب سے اچھا دن تھا۔ ٹوٹتا بنتا مومینٹم آخر میں ٹوٹا ہی ثابت ہوا اور فائنل میں آسٹریلیا سے شکست فاش سے دو چار ہو گئے۔

شاہد آفریدی پاکستان کے ہر دل عزیز کرکٹر رہے ہیں۔ 2016 کے اواخر میں بہت سے لوگوں کو اس بات کا رنج تھا کہ اس عظیم کھلاڑی کو الوداعی میچ تحفے میں کیوں نہیں دیا گیا۔ میں نے بطور کرکٹ فین شاہد آفریدی کو ان کے تمام کیرئیر قریب سے دیکھا ہے۔ جب وہ انٹرنیشنل ایرینا میں آئے تب میرا بچپن تھا اور جب رِٹائر ہوئے تب جوانی۔ تو میرا کرکٹ سے لگاؤ آفریدی کے کیرئیر کے ساتھ ساتھ ٹرین کی پٹڑی کی طرح متوازی چلا۔ اس لئے میں ہمیشہ سے آفریدی کی پیشہ ورانہ قابلیت کی سکروٹنی کرنے کا حق اپنے لئے محفوظ سمجھتا آیا ہوں۔

آپ یو ٹیوب پر جائیں اور آفریدی کی 1996 سے 1999 تک کی پرفارمنسز دیکھیں۔ آپ دیکھیں کیسے ایک ٹین ایج لڑکا 37 بالز پر 100 کرتا ہے۔ کیسے وہی لڑکا کارلٹن اینڈ یونایئٹد سیریز 97۔ 1996 کے دونوں فائنلز کی جیت میں آل راؤنڈ کردار ادا کرتا ہے، لارا جیسے بیٹسمین کو اپنا آسان شکار بناتا ہے۔ کیسے وہی نوجوان انڈیا کے مشکل ترین ٹوؤر 99۔ 1998 کے پہلے ہی ٹیسٹ میں اپنی پہلی مگر سچن ٹنڈولکر کے ٹاکرے کی ایک شاہکار سنچری داغتا ہے اور پاکستان کو تاریخی فتح دلاتا ہے۔

میں اگر آفریدی کے اُس وقت کو دیکھ کر اس کے مستقبل کا خط کھینچوں تو وہ ایک پیشہ ور، عظیم، سمجھ دار، اور طویل عرصے تک پاکستان کو میچز جتوانے والے کرکٹر کا کھنچتا ہے۔ مگر افسوس یہ کہ آفریدی کا میچورٹی لیول عمر کے ساتھ بڑھا نہیں۔ کہیں رک سا گیا تھا۔ بلکہ کبھی کبھار تو نیچے بھی گرا۔ میری یادداشت میں ایسے میچز کا ڈھیر لگا ہوا ہے جو آفریدی کے صرف پندرہ سے پچس منٹ کریز پر رکنے سے جیتے جا سکتے تھے۔ آفریدی کی کہانی، عوام کی اس سے محبت، یہ سب ایک اینگل سے اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم کیسے آگے بڑھتے ہیں۔ کون سے عناصر پسند کرتے ہیں۔ اور کون سے نظر انداز کر دیتے ہیں۔

عبدالرزاق نے گلین مگراتھ کو ایک اوور میں پانچ چوکے مارے لیکن کیا پاکستان وہ میچ جیتا؟ وہ ٹورنامنٹ جیتا؟

ایک بار سلیم الٰہی اور عبدالرزاق نے جنوبی افریقہ کی باؤلنگ کے انہی کے گراؤنڈ میں پرخچے اڑا کر رکھ دیے۔ لیکن پاکستان وہ سیریز 4۔ 1 سے ہار گیا۔

اس طرح کی کئی کہانیاں موجود ہیں جب ہم نے لمحاتی مزے تو خوب لوٹے لیکن جب جب طویل کامیابیاں حاصل کرنے کی آزمائشیں آئیں تو ہمارا سٹیمنا جواب دیتا رہا۔

طویل عرصے کی کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے چکا چوند روشنیوں سے نکل کر محنت، مشقت لگن، اور ایمان داری سے کام کرنا پڑتا ہے۔ بقول ویرات کوہلی فٹنس اور اسکلز اپمروو کرنے کے لئے بورنگ حد تک محنت کرنا پڑتی ہے۔ صرف کھلاڑی ہی نہیں کوچز، بورڈ اور دوسرے منسلک افراد یا ادارے اوپر سے نیچے تک کام کریں، تب جا کر ویژنری نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ جیسے بھارت کو راہول ڈریوڈ جیسے طبیعتاً بورنگ انسان کو انڈر 19 ٹیم کا کوچ بنا کر 2018 کے انڈر 19 عالمی کپ کی فتح کی صورت میں حاصل ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).