شراب پر پابندی کا بل منظور ہونا بھی نہیں چاہیے تھا


شراب پر پابندی کا بل اقلیتی رکن اسمبلی کی طرف سے پیش کیا گیا جسے کثرتِ رائے سے مسترد کر دیا گیا۔ ہونا بھی یہی چاہیے تھا۔ کیونکہ بقول وزیر اطلاعات سستی شہرت کا حصول مشکل کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ البتہ اصل وجہ بتانے سے گریز کرنا بھی عقلمندی نہیں۔ اگر بتایا جاتا کہ شوگر ملوں کے مالکان کی اکثریت ہی اسمبلی میں موجود ہے جو اس بل کے حق میں نہیں۔ اب یہ ربط کون سمجھے کہ شوگر ملوں میں کیا کیا بنتا ہے۔

سرِ دست عرض ہے کہ شوگر تو شوگر ملز کی بائی پراڈکٹ یا فاضل آمدن رہ گئی ہے۔ شوگر سے زیادہ قیمتی بگاس یا مولیسس ہے جو شوگر کے بعد بچتا ہے۔ پہلے ان مل مالکان نے دھڑا دھڑ لوہے کی ملیں لگائیں جو بگاس کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔ پھر یوں ہوا کہ لوہے کا سکریپ امپورٹ کرنا پڑتا تھا سو لوہے کی ملیں اتنی سود مند نہ لگیں جتنا آئی پی پیز تھے اور ملک میں بجلی کی قلت بھی تھی سو مہنگے داموں اسی ویسٹ سے بجلی بنا کے بیچی گئی۔ پھر یوں ہوا کہ پتہ چلا کہ سب سے قیمتی چیز جو بگاس سے بنتی ہے وہ خمر ہے۔ الکوحل کے لیے ڈسٹلریاں بھی شوگر ملوں میں لگا لی گئیں۔ اب اسلامی جمہوریہ پاکستان لاکھوں ٹن الکوحل دنیا کو بیچتا ہے جو کہ ایک مفید زرِ مبادلہ ہے۔ یہ تو نہیں معلوم کہ حکومت اس ایکسپورٹ سے کتنا کماتی ہے لیکن یہ تو ضرور ہے کہ پرائیویٹ جیٹ جہاز صرف چینی بیچ کر نہیں خریدے جاتے۔

یہ دلیل کافی ہے کہ شراب پر پابندی کا بل منظور نہیں ہونا چاہیے تھا ورنہ کتنے لوگوں کا روزگار چھن جاتا۔

بھارت میں کتنا ہی عرصہ یہ اسکینڈل چلتا رہا کہ حکومت جو گندم خریدتی تھی اس میں سے بڑا حصہ جان بوجھ کر بارشوں کی نظر کر دیا جاتا اور جب وہ گندم سڑ کے استعمال کے قابل نہ رہتی تو اسے چونی فی ٹن کے حساب سے شراب بنانے والی سب سے بڑی ڈسٹلری خرید لیتی۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان میں محکمہ خوراک گندم کی کتنی حفاظت کرتا ہے اور اس کا ویسٹ کہاں جاتا ہے البتہ قرضوں میں ڈوبے ملک کو سڑی ہوئی گندم پر چونی فی ٹن بھی ہاتھ آئے تو کیا برا ہے۔

شراب کے اوپر پابندی لگنے سے جو مزید تباہیاں بڑے پیمانے پر ہونے کا خدشہ ہے ان میں ایک اردو شاعری کا ناطقہ بند ہونا بھی ہے۔

شاعروں کی بڑی تعداد کے اشعار اسی سرور کے مرہونِ منت نکلتے ہیں۔ کیا اب اس ملک سے شاعری جیسی عظیم صنف کو ختم کر دیا جائے؟

شراب پر پابندی لگی تو شہد اور زیتون کے تیل کے لیے بوتلیں ناکافی ہو جائیں گی۔ شہد اور تیل غریب بندہ بیچتا ہے، وہ شیشے کی بوتلیں کہاں سے حاصل کرے گا اور اس کے کاروبار کو کتنا نقصان ہوگا اس کا حکومت کو بخوبی علم ہے۔

کبابوں اور نمکو کے کاروبار کو بھی زک پہنچنے کا اندیشہ ہے کہ یہ شرابیوں کی محافل کا جزوِ لاینفک تصور ہوتے ہیں۔

شراب پر پابندی سے شراب کی درآمدی سمگلنگ کے بڑھ جانے اور برآمد ختم ہو جانے سے درآمدات اور برآمدات کی شرح بری طرح بگڑ جائے گی اور ڈالر کی قیمت (جو پہلے ہی شرابیوں کی طرح ڈگمگاتی ہے یا دیسی شراب کی طرح ایک دم زیادہ چڑھ جاتی ہے) ولایتی شراب کی قیمت سے طے ہونے لگے گی اس لیے حکومت کا فیصلہ دانش مندانہ ہے، قابلِ شتائش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).