سو دن میں وزیراعظم نے قوم کو حوصلہ دیا ہے


تجھ کو خبر نہیں مگر اک سادہ لوح کو
برباد کر دیا تیرے سو دن کے اختیار نے

ہم نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانی ہے۔ ریاست مدینہ کے معاشی پہلو نے غریبوں کو اٹھایا ہم نے پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا ہے یہں غریب ملک کو اوپر لے کر آئیں گے۔ ہم غربت ایسے دور کریں گے جیسے چین نے ستر کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا۔ ہم کرپشن ایسے ختم کریں گے جیسے چین نے ختم کی۔ ہم چن چن کر کرپٹ لوگوں کو لٹکائیں گے۔ ہم مرغیاں اور انڈے بیچ کر دیہاتوں سے غربت کا خاتمہ کریں گے جس طرح بل گیٹس نے افریقہ میں غربت ختم کی۔

ہم کٹے پال کر اور ان کا گوشت بیچ کر ملائشیا کی مارکیٹ پر قبضہ کریں گے کیوں کہ وہ حلال گوشت کی دوہزار ارب کی مارکیٹ ہے۔ ہم ڈالر کو کھلا چھوڑ دیں گے۔ نواز حکومت نے اسے کتے کی طرح باندھ کے رکھا ہوا تھا۔ ہم اسے آزاد کر دیں گے تاکہ وہ روپے کو کھا جائے۔ روپے کو ہم نے کیا کرنا ہے۔ پاکستان میں ڈالروں کی ریل پیل ہو گی۔ کیوں کہ ہم نے گورننس ٹھیک کر دی ہے۔ ساری بات گورننس کی ہوتی ہے۔ سرمایہ دار ہم پر اعتبار کرتے ہیں۔ اس لئے غیر ملکی سرمایہ دار ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ ہم گورنر ہاوس کی دیواریں گرا دیں گے۔ وہ اینٹیں بیچ کر یونیورسٹی بنائیں گے۔ ہم نے اگر قوم بننا ہے تو یہ دیواریں توڑ نی پڑیں گی۔ قومیں سڑکیں بنانے سے نہیں بنتیں۔

وزیر اعظم کا دورہ کامیاب رہا۔ قوم خوشخبری سن لے۔ سعودی عرب نے اربوں ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ چین کا دورہ بہت کامیاب ہوا ہے۔ ایسی کامیابی ملی ہے جو دنیا کو بتائی نہیں جاسکتی۔ ملائیشیا کا دورہ بھی کامیاب رہا۔ آئی ایم ایف کا پاکستان کا دورہ بھی مفید ثابت ہوا۔ انہیں یقین ہے کہ پاکستان کو مدد کی ضرورت ہے۔ اور ضرورت مند دیوانہ ہوتا ہے۔

غربت مہنگائی بیروزگاری کی ماری ہوئی عوام بالکل خاموش ہے جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ ٹیکس دینے والے سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ مارکیٹیں سنسان ہوتی جارہی ہیں۔ مارکیٹ میں آدھا بزنس بھی نہیں رہ گیا۔ قوت خرید ہی نہیں تو کیا خریدیں۔ اپوزیشن اور مذہبی رہنما جیل جا چکے ہیں۔ جو بچ گئے ہیں ان کو جیل بھیجنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ عوام کو گورنر اور پریزیڈنٹ ہاوس دکھا کر خوش کیا جا رہا ہے۔

گنے کے کاشتکار سڑکوں پر احتجاج کرتے پھرتے ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ ریل کے کرائے میں اضافہ ہوچکا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل سستا ہونے کے باوجود سستا نہیں کیا گیا حالانکہ یہاں آسانی سے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا تھا۔ پاکستان میں زیادہ تر اشیا امپورٹ کی جاتی ہیں خاص طور پر ادویات امپورٹ کی جاتی ہیں۔ ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آرہی ہیں وجہ ڈالر کی اونچی اڑان ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں مجھے تو پتہ ہی نہیں کس نے ڈالر مہنگا کردیا۔

وزیر اعظم کو سٹاک مارکیٹ کریش ہونے کا بھی علم نہیں ہو گا۔ ان ساری باتوں کے باوجود وزیراعظم پر امید ہیں اور ان کا حوصلہ بلند ہے۔ وہ قوم کو اعتماد کے ساتھ یقین دلا رہے ہیں کہ عارضی مشکلات پر جلد قابو پالیا جائے گا۔ ایک حوصلہ ہی تو ہے جو وزیراعظم نے سو دنوں میں قوم کو دیا ہے۔ یہ حوصلہ قوم کے لئے غنیمت ہے۔ ایسے میں یہی کہا جاسکتا ہے۔
توں لنگ جا ساڈی خیر اے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).