شہباز شریف کی عدالت میں تصویر بنانے پر میری پیشی


6 دسمبر کو سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کوساتویں مرتبہ احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ مجھے اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی کی عدالت میں پہلی سماعت جس کے نتیجے میں انہیں پہلی مرتبہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے پاس بھیجا گیا اور ساتویں پیشی جس کے فیصلے کے بعد نیب کی ریمانڈ مسترد کر کے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔ مجھے دونوں سماعتوں میں عدالت کی مکمل کارروائی سننے کا موقع ملا۔

صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) شہباز شریف کوریمانڈ پر کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے نیب کے سیل میں انہوں نے سوانح حیات سمیت فلسفے، سیاسیات پردرجنوں کتابیں پڑھ ڈالی ہیں، وہ کتاب پڑھتے ہوئے باقاعدہ نوٹس لیتے ہیں۔ ان دنوں وہ ہنری کسنجر کی کتاب ورلڈ آرڈر، آسٹریلین پائلٹ پاؤل کی Reach for the sky اور اسرائیلی مصنف کی 21 Lessons for the 21 st Century پڑھ رہے ہیں۔

احتساب عدالت میں شہباز شریف کی پہلی پیشی میں کمرہ عدالت میں پہنچنے کے لیے مجھے صبح 6 بجے عدالت کا گیٹ عبور کرنا پڑا تھا۔ بصورت دیگر کمرہ عدالت تک پہنچنا ممکن نہ ہوتا۔ اس بات کا احساس سماعت کے بعد باہر رہ جانے والے دوستوں نے مجھے دلایا تھا۔ ساتویں پیشی پر مگر میں نیند کے ہاتھوں بے بس تھا اور عدالت کے مرکزی گیٹ پر پہنچنے پر گھڑی مجھے 8 بج  کر چالیس منٹ کا وقت بتا رہی تھی۔ کورٹ رپورٹرز اچھی طرح جانتے ہیں اہم سماعت پر اتنی دیر سے پہنچنے کا مطلب، خبر آپ کے ہاتھ سے گئی، کے مترادف ہے۔ مگر میری خوش بختی کمرہ عدالت کے باہر دیوار بنے پولیس اہل کاروں کو عبور کر کے میں اندر پہنچ گیا۔ کمرہ عدالت کے چاروں اطرف میں پولیس کے اہل کار بڑی تعداد میں موجود تھے۔

عدالت میں شہباز شریف کے پرسنل اسٹاف اور چند وکلا کے ساتھ کچھ رپورٹرز کرسیوں پر براجمان تھے۔ کمرہ عدالت میں سکون کا سماں تھا۔ کچھ دیر بعد مسلم لیگ کے رہنما خواجہ حسان ایک پولیس افسر کے ساتھ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے، انہیں کسی نے اپنی کرسی پہ بٹھا دیا۔ کوئی پانچ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ وہی پولیس افسر دوبارہ آیا اور خواجہ حسان کے کان میں سرگوشی کر کے انہیں باہر اپنے ساتھ لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ افسر دوبارہ آیا اور کہنے لگا خواجہ حسان صاحب کے ساتھ کون آیا تھا، کسی نے جواب نہیں دیا میں نے پہلو بدلا تو افسر نے مجھے مخاطب کیا ”آپ ان کے ساتھ ہیں“ میں نے جواب دیا ”نہیں میں تو آپ کے احترام میں کھڑا ہونے لگا تھا“، جس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہہ گونجا۔

کچھ وقت گذرا دروازے پر ہلچل ہوئی، دروازہ کھلا تو اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز اندر داخل ہوئے۔ وکلا اور صحافیوں سے ہاتھ ملایا پہلی قطار میں موجود کرسی ان کے لیے خالی کی گئی، جہاں وہ بیٹھ گئے۔ گھڑی کی سوئیاں 10 کے ہندسے کے پاس تھیں کہ عدالت کے باہر باقاعدہ شور ہوا، دروازہ کھولا گیا۔ کچھ دھکم پیل ہوئی اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔ پہلی قطار میں حمزہ شہباز کے بالکل ساتھ بائیں طرف والی نشست پر شہباز شریف بیٹھ گئے۔

شہباز شریف حمزہ شہباز سے، اس کے بعد اپنے اسٹاف افسر عطا اللہ تارڑ سے، بعد ازاں اپنے وکیل امجد پرویز سے سرگوشیوں میں مشاورت کرتے رہے۔ جب کہ اس دوران کمرہ عدالت میں صحافی ان کی فوٹیج بنانے اور وکلا شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی کرسیوں کے پیچھے کھڑے ہوکر تصاویر بنوانے میں مصروف رہے۔ اسی اثنا میں جج نجم الحسن عدالت میں تشریف لائے۔ سماعت شروع ہوئی نیب کے وکیل نے دلائل دینے کا آغاز کیا تو کمرے کے باہر نعرے بازی شروع ہو چکی تھی۔ پھر کسی جوشیلے متوالے نے خطاب شروع کر دیا، جس پر جج صاحب نے سابق وزیر اعلی پنجاب کو باہر کی جانب اشارہ کر کے مخاطب کیا، ”میں تو صرف ایک آواز ہی سن پا رہا ہوں“، جس پر حمزہ شہباز کھڑکی کی طرف بڑھے اور کارکنوں کو خاموش رہنے کا کہا، مگر اس سے آوازوں میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔

نیب کے وکلا نے وہیں سے سلسلہ جوڑا، انہوں نے کہا مسرور انور اور مقصود ملک کا نام بار بار سامنے آ رہا ہے، جن کے اکاؤنٹس میں بڑی ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں، جو مشکوک ہیں رِکارڈ سے پتا چلتا ہے، وہ شہباز صاحب کے ذاتی ملازم ہیں۔ جج نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا ”مشکوک ٹرانزیکشن کے متعلق بتائیں؟“ جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ جن افراد کے نام عدالت کو بتائے گئے ہیں، ان کی اکاؤنٹ کی تفصیلات میں موجودد ایڈریس سے پتا چلتا ہے، وہ ان کے ذاتی ملازم ہیں، جب کہ یہ ان کے اکاؤنٹس میں کی جانے والی ٹرانزیکشن کو ڈس اون کر رہے ہیں۔

نیب کے وکلا کے دلائل کے دوران شہباز شریف نے کئی مرتبہ ان سے سوال کیا، ایسا لگتا تھا جیسے وہ نیب کے وکلا کی باتوں پر حیران ہیں، کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ دوران سماعت پچھلی قطار میں سے کسی عورت کی آواز آئی، ”یہ کیا کہہ رہے ہیں؟“۔ شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے اپنی بات کا آغاز ہی یہاں سے کیا کہ ان ناموں پر نیب پہلے سے کام کر رہا ہے، یہ نام بتا کر عدالت کو کسی اور طرف لگایا جارہا ہے۔ نیب کے پاس عدالت کو بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اتنے دن جسمانی ریمانڈ کے باوجود کچھ نہیں ملا۔

سماعت جاری تھی کہ کمرہ عدالت کے باہر ہنگامہ آرائی بڑھی، تو جج صاحب نے شہباز شریف کو کارکنان کو چپ کروانے کا کہا، جس پر وہ کھڑکی کی جانب بڑھے اور میں بھی ان کے پیچھے وہاں تک گیا۔ میاں شہباز شریف نے باہر موجود لوگوں کواپنی شہادت کی انگلی منہ پر رکھ کر چپ رہنے کا کہا، پھر دونوں ہاتھ جوڑ کر انہیں خاموش رہنے کا کہا یہاں تک کہ انہیں کہنا پڑا ”پلیز شور نہ کریں، خدا کا واسطہ شور مت کریں۔“ یہاں میرا صبر کا پیمانہ لب ریز ہوا، مجھے یہ خبر لگی، یہ بلا شبہ ایکسکلیوزیو فوٹیج تھی، یہی وہ لمحہ تھا جسے میں نے اپنے موبائل کیمرے میں محفوظ کر لیا۔

مگر عدالتی عملہ اور پولیس اہل کار میرے سر پہ پہنچ چکے تھے۔ وہ میرے پاس آئے اور کہا ”جج صاحب کا حکم ہے آپ کو باہر بھیج دیا جائے۔“ میں نے کہا، ”جی بہتر۔“ ایسے میں جج صاحب کی آواز گونجی، ”اسے میرے پاس لاؤ۔“ عدالت میں موجود مجمع ایک طرف ہٹ گیا۔ میں جج صاحب کے دائیں طرف جب کہ شہباز شریف بائیں طرف کھڑے تھے۔ اب میں عدالت کے کٹہرے میں تھا، ”کون ہو تم کیا کر رہے تھے؟“ معزز جج نے سوال کیا Sir I am journalist، i am really sorry میں نے انگلش میں جواب دیا۔

عدالت میں چند لمحوں تک خاموشی کا مکمل راج رہا، پھر معزز جج نے اشارے سے ٹھیک ہے، کا سگنل دیا۔ میں نے دل ہی دل میں ”تھینک یو جج صاحب“ کہا اور پچھلی قطار میں کھڑا ہو گیا۔ عدالت میں دلائل کا آغاز دوبارہ ہو چکا تھا۔ شہباز شریف کے وکیل اپنے دلائل سے نیب کی قانونی ٹیم کو ٹف ٹائم دے رہے تھے۔ ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب لگنے لگا یا تو نیب کے وکلا تیاری کے ساتھ نہیں آئے یا پھر واقعی دو ماہ کے جسمانی ریمانڈ کے بعد بھی انہیں شہباز شریف کی کرپشن سے متعلق کچھ نہیں ملا۔

نیب کے وکیل نے کہا مقصود ملک کے اکاؤنٹ میں ساڑھے تین ارب روپے آئے ہیں۔ ایک ملازم کے اکاؤنٹ میں یہ پیسے کیسے آئے، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ پیسے کرپشن کے ہیں مگر ہمیں وقت دیا جائے تو ہم اس پر تفشیش کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر جج نے استفسار کیا ”اتنے دن آپ نے کیاکیا؟ کیا آپ نے ان لوگوں کو بلایا؟ ابھی تک کیا ملا وہ بتائیں؟“

شہباز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جنوری 2018ء سے اس پر تحقیقات ہورہی ہیں۔ ابھی تک نیب مفروضوں پر بات کر رہی ہے۔ جس پر جج سید نجم الحسن نے کہا، ”ہم اس کیس کو جوڈیشل کر رہے ہیں۔“ اس کے ساتھ ہی خاتون وکیل نے خوشی کے مارے کہا، ”تھینک یو جج صاحب۔“ اس پر اس خاتون کو کسی نے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ کمرہ عدالت میں موجود صحافی، وکلا کے ساتھ ساتھ پولیس اہل کاروں نے شہباز صاحب سے ہاتھ ملا کر انہیں مبارک باد دی۔

میں نے اس شخص کو ڈھونڈنے کی کوشش کی جس نے کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہی مجھے کہا تھا، کہ شہباز شریف جوڈیشل ریمانڈ پر جائیں گے، مجھے پہلی سماعت والے وہ وکیل صاحب بھی یاد آئے جنہوں نے سماعت کے فورا بعد مجھے بتایا تھا، کہ نیب کے پاس جسمانی ریمانڈ پر اتنے دن کے لیے بھیجا جائے گا۔ مجھے خاتون وکیل کے الفاظ یاد آئے، میں دل ہی دل میں ”تھینک یو جج صاحب“ کہتا ہوا عدالت سے باہر آ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).