شادیوں کاموسم اور زن مرید کا درست کنسیپٹ


یوں تو شادیاں کسی خاص موسم یا وقت کی پابند نہیں ہوتیں لیکن عام طور پر عیدالاضحی کے بعد شادیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو چلتے چلتے موجودہ شب و روز میں اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے۔

شومئی قسمت کہ پردیس میں ہونے کی وجہ سے نہ تو ولیمے کی کسی دیگ کی کُھرچن یاخوشبو پا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی بے گانی شادی میں عبداللہ کی دیوانگی والا رول پلے کر سکتے ہیں۔

لیکن شادیوں کے اس سہانے موسم اور پے درپے شادیوں کو دیکھ کر جی میں آیا کیوں نہ اس نئی زندگی میں قدم رکھنے والوں سے چند حروف کے ذریعہ مخاطب ہوا جائے جو سب کے لئے مبارک باد بھی بنے اور کسی درجے ہمارے احساسِ محرومی کا ازالہ بھی ہو

بلاشبہ شادی ایک خوبصورت بندھن کانام ہے اور میاں بیوی کے ما بین محبت ایک فطری اور طبعی معاملہ ہے، لیکن اگر کوئی شوہر یہ سمجھتا ہے کہ یہ زندگی محضِ پھولوں بھرے خوابوں سے معمور ہوتی ہے اور بس! تو وہ درحقیقت ایک نا قابلِ وجود چیز کو اس دنیوی زندگی میں تلاش کر رہا ہے، جبکہ اس دنیوی زندگی کی طبیعت اور مزاج میں مشکلات، مشقتیں اور تکلیفیں ودیعت کی جا چکی ہیں، اللہ تعالی نے اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ:

یقیناً ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے۔ [البلد 4 ]

مصائب و حوادث، پریشانیاں اور مشکلات اس دنیوی زندگی کاحصہ ہیں، اور اگر کوئی شخص اس گردشِ حیات سے الٹ چلنا چاہے تو یہ پانی میں انگارے تلاش کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں جس میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ آپ کو اس دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نظر نہیں آئے گی جو ہر اعتبار سے کامل اور ہر قسم کے عیب سے پاک ہو، لیکن کامیاب انسان وہی ہے جو ان عیوب کو دیکھنے کے باوجود معاملات کو آگے کی جانب لے کر جائے۔

ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہ رہا تھا، تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

تم اسے کیوں طلاق دینا چاہتے ہو؟
اس نے کہا: مجھے اس سے محبت نہیں ہے!

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
تو کیا ہر گھر کی بنیاد محبت پر ہی ہوتی ہے؟ یا باہمی شفقت اور حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟

قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
اور ان کے ساتھ بھلے اندازمیں زندگی بسر کرو، پس اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ تعالی نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو [ النساء: 19 ]

صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کوئی مومن کسی مومنہ [بیوی] سے بغض مت رکھے، اگر اس کی کوئی بات اچھی نہ لگے تو دیگر امور سے خوش ہو جائے )

یعنی بیوی کو ہرگز قابلِ نفرت نہیں سمجھنا چاہیے ؛ اگر بیوی کی کوئی بات نا گوار لگے تو دیگر اچھی صفات پر غور کرنا چاہیے مثلاً: بیوی تیز مزاج اور کرخت لہجہ کی مالک ہے ؛ لیکن ساتھ میں صوم وصلاة کی پابند ہے، خوب صورت اور پاکدامن ہے یا رفاقت کا حق ادا کرتی ہے یا اسی طرح کی کوئی اور خوبی اس میں پائی جاتی ہے توان خوبیوں پر غور کرکے زندگی کی گاڑی کو چلنے دینا چاہیے،

بعض حضرات شوہر بننے سے پہلے بیوی کے بارے میں تمام تر ذمہ داریوں، مشکلات، پریشانیوں اور مصائب سے مبرّا خوشیوں، مستیوں، کانٹوں کے بغیر پھولوں کا ایک عجیب خواب دیکھتے ہیں اور پھر جب شادی کے بعد من پسند تعبیر نہیں ملتی تو خود پنکچر ہوکر سارا بوجھ ایک ٹائر (بیوی) پرڈال دیتے ہیں، جبکہ بعض حضرات بیوی سے کسی قسم کے مشورہ لینے، اس کی خدمت کرنے، اس سے عزت و احترام سے پیش آنے، گھر کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹانے اور اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کو زن مریدی سمجھتے ہیں۔

اسلام میں کہیں نہیں لکھا کہ شوہر کا بیوی کے ساتھ کاموں میں ہاتھ بٹانا گناہ ہے لیکن افسوس کہ بعض نا عاقبت اندیش جب کسی شوہر کو اپنی بیوی کا ہاتھ بٹاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو شیطان کے سب سے بڑے چیلے کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے زن مرید کہہ کر بیوی سے دور کردیتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے زیادہ بہتر ہو“ ۔

نبی کریم صلى اللہ علیھ و سلم اپنے گھر والوں کی خدمت میں ہوتے تھے، بکری سے دودھ بھی نکالتے، کپڑوں میں پیوند بھی لگالیا کرتے، اور اپنے جوتوں کی مرمت بھی خود کرلیا کرتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوڑ میں دو بار مقابلہ بھی فرمایا، ان کو حبشیوں کے نیزہ بازی کے کھیل کا نظارہ بھی کرایا اور گاہے گاہے ان کو پیارے نام سے بھی پکارا۔

حقیقت یہ ہے کہ حسن سلوک اور اچھا برتاؤ زن مریدی نہیں بلکہ حکمِ خداوندی کی بجا آوری ہے۔ اگر شادی کے بعد نمازوں کے اوقات بیوی سے دل بہلانے میں گزرے، ماں باپ پرانے لگنے لگے، بھائی بے گانے لگنے لگے، بہنیں اجنبی لگنے لگے اور دیگر خدا یا مخلوقِ خدا کے حقوق متاثر ہونے لگے توسمجھ جائے کہ آپ بیوی کے ہاتھ پکی بیعت کرچکے ہیں،

ورنہ محضِ حسن سلوک اوراچھے برتاؤ سے کوئی زن مرید نہیں بن جاتا۔ اسلام کاخلاصہ حقوق ادا کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالی اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنا (جس میں بیوی بھی شامل ہے ) زن مریدی نہیں عینِ شریعت ہے۔ زن مریدی کا درست مفہوم سمجھنے کے لئے عربی مثل (عَنْزٌ وَلَوْ طَارَتْ) یعنی بکری ہے اگرچہ اڑجائے کا پسِ منظر پڑھ لیجیے۔

بیوی نے اپنے مظلوم شوہر کو بطخ دے کر بازار بھیجا اور ساتھ ساتھ رعب انگیز لہجے میں کہا اس کو بکری کِہ کر بیچنا ہے بطخ نہیں، شوہر بے چارہ (مرتا کیا نہ کرتا) محاورے کے عینِ مطابق بطخ بازار لے جاکر ”بکری خریدو بکری خریدو“ کی صدائیں بلند کرتا رہا خریدار آکر بکری کا پوچھتے اور یہ بطخ دکھاتا، وہ بہت سمجھاتے رہیں کہ بھائی یہ بطخ ہے بکری نہیں لیکن وہ کسی بھی قیمت یہ بات ماننے کے لئے تیارنہیں تھا کسی صاحبِ حکمت آزمودہ کار کا وہاں سے گزر ہوا، کمالِ حکمت سے بطخ ہاتھ میں لے کر اڑادی اور کہنے لگا بھائی دیکھو! یہ اڑگئی جبکہ بکری اڑتی نہیں، تب اس نے مظلومانہ لہجے میں یہ مشہور جملہ کہا جو آج تک ہٹ دھرم لوگوں اور زن مریدوں کے لئے مثل کے طور پر کہا جاتا ہے (بکری ہے اگرچہ اڑجائے )۔

بیوی کو بھرپور محبت بھی دیں، ہنسی مذاق بھی کریں، خدمت بھی کریں، گھریلو کام کاج میں ہاتھ بھی بٹائیں، مقدور بھر اچھے اچھے ذائقہ دار کھانے بھی کھلائیں، سیرسپاٹے بھی کرائیں، ساتھ دوڑ بھی لگائیں، پیارے نام سے پکار کر محبت کا اظہار بھی کریں، کھیلیں کودیں بھی، اس کے گِلے شکوے بھی سنیں، اور دراندازیوں پرصبر بھی کریں کہ ظالم بننے سے مظلوم بننا بہرحال بہتر ہے لیکن زن مریدی میں ظلم سِہتے سِہتے اتنا بھی مظلوم نہ بنیں کہ کل کلاں بطخ کو بکری کہنا پڑجائے۔

دیگر مظلوموں کی فریاد رسی کو کوئی نہ کوئی پہنچ ہی جاتا ہے لیکن زن مرید کی مدد کو کوئی نہیں پہنچتا کہتے ہیں پرائے ناموس پہ کون ہاتھ اٹھائے گا۔ امید ہے کہ آپ کو زن مرید کا درست کنسپٹ سمجھ آیا ہوگا۔ اللہ تعالی آپ کاحامی و ناصر ہو اور شادی آپ کو مبارک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).