حکومت کے اگلے 100 دن


پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو 100 روز مکمل ہو چکے ہیں۔ یہی وہی تحریک انصاف ہے جس نے کئی سال سے قوم کو تبدیلی کے نعرے کے پیچھے لگائی رکھا، یہ وہی پارٹی ہے جس نے حکومت میں آنے کے بعد اگلے روز ہی قرضے بیرون ممالک کے منہ پر مارنے تھے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ڈالر مہنگا ہونے پر بڑی بڑی باتیں کرتے تھے لیکن آج ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے۔ یہی وہی رہنما ہیں جو غریبوں کے حقوق کی بات کرتے تھے لیکن حکومت میں آتے ہی بجلی، گیس اشیاٗ خوررنوش سمیت بہت کچھ مہنگا کر دیا گیا۔

یہی وہ تحریک انصاف ہے جو پنجاب پولیس پرتنقید کیا کرتی تھی لیکن حکومت میں آتے ہی ڈی پی او پاک پتن سمیت کئی کیسز سے ان کی پولیس میں مداخلت سامنے آ گئی۔ یہی وہی جماعت ہے جو اداروں میں سیاسی مداخلت کی بات کیا کرتی تھی اور پھر ایک فون کال نہ اٹینڈ کرنے پر آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ کیس ہمارے سامنے ہے۔ اگر چہ کسی بھی حکومت کو جانجنے کے لیے 100 دن بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن حکومت نے اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے خود ہی 100 دن کا فارمولا ایجاد کیا تھا۔ سو دنوں میں کفایت شعاری مہم پر تھوڑا بہت عمل کرنے کے علاوہ بے سہارا فراد کے لیے عارضی پناہ گاہیں قائم کی اور تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا۔ اس کے علاوہ کوئی بڑا عملی کام دیکھنے میں نہیں آیا۔

یقینا حکومت نے اپنے حامیوں کے خیال میں بہت کامیابیاں حاصل کی ہوں گی۔ ہم بھی ٹی وی کے آگے بیٹھے رہے کہ حکومت کی جانب سے ابھی وزرا کی کاگردگی رپورٹ سب کے سامنے پیش ہو گی تاہم ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ کارکردگی نہ دکھانے والے وزیر کو عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ وزیراعظم صرف اتنا ہی بتا دیں کہ تین ماہ کے اندر وزیر اعلیٰ پنجاب نے کون سی اہم کامیابی دکھائی؟ جو دن گزر گئے سو گزر گئے۔ نئی نویلی دلہن کو سسرال میں پاؤں جمانے کے لیے کچھ وقت تو درکار ہوتا ہے۔ تاہم اب حکومت کو اپنی سو دن کی کارکردگی کا واویلا کرنے کی بجائے اگلے سو دنوں کا سوچنا ہو گا۔

حکومت کو اگلے سو دِن کے مرحلے میں کسان پر خاص توجہ دینی چاہیے جو کہ پِچھلے سو دِن میں کھاد اور ڈیزل کی قیمتیں بلند ہونے سے بہت متاثر ہوا ہے، کھاد کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے نے کسان کی مشکِلات کو بہت بڑھا دیا ہے۔ تعلیم اور صحت کے مسائل پر ایمرجنسی بُنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو کہ الیکشن سے پہلے حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل تھیں، مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے جس میں قصور گذشتہ حکومت کا بھی ہے تاہم اس وقت عوام موجودہ حکومت کے حوالے ہے اس لیے پرائس کنٹرول پالیسی پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے تا کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں توازن کی فِضا قائم ہو سکے اور مہنگاء پر کنٹرول مُمکن ہو سکے، کیوں کہ غریب اور مِڈل کلاس طبقہ اِس سے ڈائریکٹ متاثر ہو رہا ہے۔

پولیس ریفارمز پر سنجیدہ بنیادوں پر کام ہونا چاہیے تا کہ عوام کی نظر میں قانون نافِذ کرنے والے اداروں کا وقار بحال ہو سکے، اور عوام کو بھی یقین ہو سکے کہ انہوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دے کر گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ اگر بات کریں 50 لاکھ گھروں کے منصوبے کی تو یقینا یہ ایک مضحکہ خیز اور محض دل پشوری کرنے والا اعلان تھا۔ تاہم اگر اس پر 50 فی صد کام بھی وہ جائے تو غریب عوام وزیراعظم کے شکر گذار رہیں گے۔

اگلے تین ماہ میں کم از کم 5000 گھروں کے منصوبے پر کام شروع ہو جانا چاہیے، تا کہ پچاس لاکھ گھروں کے حکومتی دعوے کو عملی جامہ پہنانے کی شروعات ہو سکے۔ گھر بنانے کے پالیسی قابِل عمل نہیں تھی، اِس کے بدلے حکومت نئے ٹاؤنز اور سوسائیٹز بنانے کا منصوبہ ملک کے ہر بڑے چھوٹے شہر میں لے کر آتی جِس میں مستحقین کو آسان قرضے کی شرائط پر پلاٹ اور گھر فراہم کیے جاتے، اور اِن منصوبوں میں میرٹ اور شفافیت کا خاص خیال رکھا جائے، تا کہ اگر اہداف حاصِل نہ بھی ہو سکیں تو منصوبے کی شفافیت پر کوئی حرف نہ آ سکے، اور عوام کو ا س کا کچھ تو ریلیف مِل سکے۔

حکومت نے ایک کروڑ نوکریو ں کا اعلان کیا تھا تاہم ابھی نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے نوکری کے منتظر ہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے بھی واضح حکمت عملی اپنانی چاہیے وگرنہ اگلے الیکشن میں تحریک انصاف نوجوان طبقے کا ووٹ حاصل نہیں کر سکے گی۔ بیورو کریسی میں موجود کرپٹ عناصر پر قابو پانے کے لئے ایک بہت مؤثر حِکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اِس حکمتِ عملی کے بغیر ترقی کا تصوّر ممکِن نہیں۔ اِنصاف کی جلد فراہمی کے حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے۔ ، جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کے معاملے ہر عمل درآمد ہو نا چاہیے۔

بلوچستان کے پس ماندگی دور کرنے کے حوالے سے عملی اقدامات پر مبنی حکمتِ عملی کی تشکیل دینی چاہیے جب کہ سندھ کے مسائل بھی اولین ترجیحات میں ہونے چاہیے ا س بار کراچی میں تحریک انصاف کا ووٹ بنک مضبوط رہا ہے۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن اگر چہ کامیابی سے جاری ہے تاہم تجاوزات کے خلاف آپریشن میں یہ خیال ضرور رکھا جائے کہ اِس سے محنت کش اور مزدور طبقے کا نقصان نہ ہو۔

مخالفین سمیت پورے پاکستان کو وزیر اعظم عمران خان کی نیت پر کوئی شک نہیں تاہم عوام اب اصل تبدیلی نظر آنے کی منتظر ہے۔ وزیر اعظم نے کل اپنی تقریر کا اختتام ’عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘  پر کیا، پر ایسا لگتا ہے کہ تین ماہ بس عشق کرنے میں ہی گذرے ہیں اب آگے امتحانات پر توجہ دینی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).