دوسری شادی کے حق میں بولنے والی ایک خاتون


خود کو نمایاں کرنے کے چکر میں انوکھی حرکات اور انوکھی بات کرنے کی روایت نئی تو نہیں البتہ دور حاضر میں اس کی شدت میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان دنوں ہماری ایک پیاری دوست مرد کی دوسری شادی کو لے کر پوسٹ پر پوسٹ داغے چلی جا رہی ہیں اور انداز ایسا ہے کہ جیسے مذہب میں دوسری شادی کی مشروط اجازت نہ ہو بلکہ یہ حکم ہو کہ ہر مرد کو دوسری شادی لازمی طور پر کرنی ہے اور لوگ اس خاص حکم کو بھولے ہوئے ہیں جب کہ وہ پیاری دوست اس حکم کو یاد دلانے کے مشن پر ہیں۔

ہمارے ہاں آدھی ادھوری آیات کا حوالہ دینے کی روایت کوئی نئی نہیں۔ علماء سے لے کر عوام تک آدھی ادھوری آیات کو اپنا ہتھیار بنا کر ہمیشہ استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہاں بھی یہی سلسلہ چل رہا ہے کہ ”انصاف نہ کر سکو گے“ والی بات کو اہمیت نہیں دی جا رہی اور نہ اس پر غور کیا جا رہا ہے کہ آیت میں حکم نہیں دیا گیا بلکہ صرف دوسری شادی کرنے سے روکا نہیں گیا۔ یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ کسی چیز کا حکم دینا اور کسی چیز سے منع نہ کیے جانے میں واضح فرق ہوتا ہے۔

اور انصاف نہ کر پانے کا حوالہ بھی اہم ترین پہلو ہے۔ اگر آپ سے کہا جائے کہ آپ کوئی ایک مثال دے دیجئے کہ آپ نے دو یا دو سے زیادہ شادیوں والے مرد کو واقعی بیویوں میں ہر طرح سے انصاف کرتے پایا ہے؟ تو یقیناً اس کا جواب نفی میں ہو گا۔ یا شاید ایک آدھ مثال پیش کر بھی دی جائے لیکن یہ ناکافی ہوگی۔ ہر معاشرت کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں، عرب کی روایات ہم سے مختلف ہیں، عرب میں شادی کی شرائط مختلف ہیں، وہاں مرد کی دوسری شادی کے حوالے سے خواتین میں ہمارے معاشرے جیسے تحفظات نہیں پائے جاتے ( یوں بھی وہ زیتون، کھجور اور شہد کے پالے ہوئے ہیں )۔

ہم بات اپنے معاشرے کی کریں گے۔ ہمارے ہاں دوسری شادی واقعی ایک عیب سمجھی جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں عورت مکمل طور پر مرد پر ڈیپنڈنٹ ہے۔ ہمارے ہاں رشتوں میں اجارہ داری کی روایت عام ہے۔ اگر عورت خود مختار ہو، خود کفیل ہو تو یہاں بھی صورتحال یکسر مختلف ہو سکتی ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں ہمارے معاشرے کے تمام ضوابط اور قواعد کو جانتے ہوئے جب کوئی عورت اتنی شدت سے دوسری شادی کی حمایت کرتی ہے کہ نہ پہلی بیوی کی اجازت کو ضروری گردانتی ہے نہ اس حوالے سے کسی پابندی کی قائل ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ خود کسی شادی شدہ مرد کی محبت میں مبتلا ہو چکی ہے یا اس کا اپنا شوہر دوسری شادی کر چکا ہے اور اب وہ مجبوراً اپنی انا کو بچانے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے غیرضروری حد تک اس امر کی حمایت کر رہی ہے۔

بات یہ ہے کہ اپنی رائے کا اظہار کرنا ایک الگ چیز ہے لیکن اس کو زبردستی دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا نامناسب رویہ ہے۔ ہم اپنی رائے دے تو سکتے ہیں لیکن اس پر اتنی شدت سے اصرار کرنا کہ دوسرے کو یہ تاثر ملے کہ ہم کسی خاص مقصد کے لئے ایسا کر رہے ہیں یہ انتہائی نامناسب رویہ ہے۔ ہمیں تو اس معاملے تک میں تربیت کی ضرورت ہے کہ اپنی رائے پر اصرار ہم کس حد تک کرسکتے ہیں اور کہاں ہمارا یہ حق ختم ہو جاتا ہے۔

مدینہ میں جب اسلام پھیلنا شروع ہوا تو وہاں لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ مسلمان کفار اور منافقین۔ منافقین دراصل مصلح کے روپ میں انتشار پھیلانے والے فسادی تھے۔ ہمیں بھی اپنے معاملات پر غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی انہی کا اتباع تو نہیں کر رہے۔ اس بات کو تسلیم کر لیجیے کہ بہت سارے احکام اسلام میں اس وقت کے عرب معاشرے کے مطابق تھے وہ ہر معاشرے میں رائج نہیں ہو سکتے ہمیں ہمارے معاشرے کے مطابق بات کرنی ہے۔

دوسری شادی کے حق میں جو دلائل پیش کیے جا رہے ہیں ان میں سرفہرست یہ ہے کہ مرد کو صرف کمانے کی مشین سمجھا جاتا ہے اور پہلی بیوی اس کی ذہنی و جسمانی آسودگی کا خاطر خواہ اہتمام نہیں کر پاتی یا اسے ذمہ داریوں کا بوجھ ڈھونے والا مزدور سمجھتی ہے۔ تو خود سوچئے کیا دوسری تیسری چوتھی شادی سے اس کی ذمہ داریاں دوگنا اور چوگنا نہیں ہو جائیں گی؟ کیا وہ مظلوم و محکوم مزید نہیں پِس جائے گا؟ کیونکہ دوسری آنے والی عورت بھی اسی معاشرے کا حصہ ہو گی اور اور کم و بیش اسی سوچ اور نظریے کی حامل ہو گی جس سوچ کی پہلی بیوی۔

مختصر یہ کہ ہمارے معاشرے میں شوقیہ دوسری تیسری شادی کی نہ تو گنجائش ہے اور نہ ہی ضرورت۔ کیونکہ ہمارے ہاں مرد اور عورت کی تعداد کا توازن اتنا بگڑا ہوا نہیں کہ ایک مرد کے لئے دو چار عورتیں ضروری ہو جائیں۔ کسی مجبوری میں اگر دوسری تیسری شادی کرنا پڑے تو اس کی بات الگ ہے اور مجبوراً کیے ہوئے کام عموماً دلی سے قبول بھی نہیں کیے جاتے، نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ اور اس چیز کو شدت سے رواج دینے کی کوشش خواہ فردِ واحد کی جانب سے ہو یا کسی خاص گروہ کی جانب سے، ایسا اقدام کسی غرض کے تحت ہی معلوم ہوتا ہے اور اس کی وجہ اس فرد یا گروہ کا کوئی ذاتی مفاد یا مقصد ہی سمجھا جائے گا۔

اور اگر ہمارے ہاں بہت ساری لڑکیاں، مطلقہ خواتین یا بیوائیں غیر شادی شدہ ہیں تو اس کی اور بہت ساری وجوہات ہیں جن پر الگ سے بحث درکار ہے۔ سوشل میڈیا ہمارے ہاں سستی تفریحات میں شمار ہونے لگا ہے سو ہر کوئی وہاں اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے یا تفننِ طبع کے لئے طرح طرح کے فلسفے بگھارتا پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب پوسٹ کسی خاتون کی طرف سے ہو اور ہو بھی مردوں کے حق میں، پھر تو تماشا ہی اور ہوتا ہے۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).