وزیرِ اعظم جناب عمران خان صاحب سے ایک دردمندانہ اپیل


خبرہے کہ آپ کی حکومت نے نالوں اور پارکوں میں بنائے گئے غیر قانونی گھر والوں کو پندرہ دنوں میں گھر خالی کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اور سب جانتے ہیں کہ حکومت کا یہ حکم حتمی ہوتا ہے۔

پورے پاکستان میں رہائش گاہوں کو ڈھا کر لوگوں کو گھر سے بے گھر کیا جا رہا ہے۔ جبکہ نعرہ یہ تھا کہ پچاس لاکھ گھر بنائے جائیں گے۔ بنانے کی خبریں تو نظر نہیں آ رہیں البتہ ڈھانے گرانے کا سلسلہ روز افزوں ہے۔ ڈیم بھی ہنوز باتوں تک ہے۔

سب سے پہلے ڈیم بننا چاہیے تھا اور پھر باری آتی ہے گھر اور مارکیٹس فراہم کرنے کی۔ عوام کو متبادل ٹھکانے دے کر اٹھایا جاتا تو اور بات تھی۔ حکومتیں شفیق ماں باپ کی طرح ہونی چاہئیں۔ موجودہ صورت حال نا قابلِ فہم اور نا قابلِ قبول ہے۔ ایک ایسی حکومت جو عوام کی فلاح وبہبود کا عزم لے کر آئی ہے عوام کی پریشانیوں سے لاعلم کیسے ہے؟ ذرا خود پر رکھ کر دیکھیں تو۔ حکومت یہ کیوں نہیں دیکھ رہی کہ وہ لوگ جو عشروں سے ایک جگہ پر رہ رہے تھے۔ جن کے معاشی وسائل بھی محدود ہیں وہ پندرہ دنوں میں مستقل طور پر کہاں جائیں گے؟

اس سے قبل صدر کراچی میں آج سے پانچ چھ عشروں پہلے کا منظرتو بازیاب کر لیا گیا ہے لیکن بے بسی اور بے گھری کی بھی ایک تاریخ رقم ہوئی ہے۔

آخر اس طرف سے آنکھ بند کیوں کر لی گئی ہے؟ محترم وزیرِ اعظم صاحب آپ کی نیک نیتی پر شک نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ اصلاحات کرنا چاہتے ہیں اور اس میں مخلص بھی ہیں۔ آپ کی حکومت سے ہمیں بہت زیادہ توقعات ہیں۔ لیکن ایک عام شہری جس کا مستقل ٹھکانہ چھین کر اسے بے گھر اور بے یارو مددگار چھوڑ د یا گیا ہو ذرا اس کے دل سے بھی سوچیے۔ ہمیں آپ کے شہروں کی خوبصورتی اور اصلاحا ت کے ایجنڈے سے کوئی اختلاف نہیں اختلاف ہے تو ان مجبوروں کو درد بہ در کرنے پر ہے۔ عوام الناس کی اس بے بسی پر حکومت نظر کیوں نہیں ہے۔ یہ پالیسی حکومت کی پسندیدگی کے گراف کے لیے ایک دھچکہ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ زیادہ عوام غریب ہے۔ آپ اصلاحات کریں ضرور کریں لیکن عوام کو بے یارو مددگار نہ چھوڑیں۔

یہ کام اس وقت ہی زیب دیتا ہے جب آپ عوام کو کچھ نہ کچھ متبادل دے سکتے ہیں جب خزانے میں اس مد کے لیے رقوم ہوں۔ یہ اندھا دھند صفائی کا سونامی تباہی لا سکتا ہے خدا کے لیے ہوش کیجیے۔

حکوت کیوں نہیں شہر سے باہر ایک نیا شہر بساتی جس میں کم ازکم زمین کو ہموار کروا کر نقشہ بنا کر سڑکوں اور پانی کی فراہمی کا بندوبست کر کے ان بے گھر لوگوں کو پلاٹ بھی دے دیے جائیں تو یہ دوبارہ بس جانے کی کوشش کر سکتے ہیں ابھی تو نہ زمین ان کی نہ آسمان ان کا۔ اور یہ کیفیت یہ بے بسی یہ بے گھری کیسی ہوتی ہے خدا کسی کو ا سکا تجربہ نہ کروائے۔ جو لوگ بے گھر ہوئے ہیں جن کا ذریعہ ء معاش ختم ہو اہے وہ اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اب کون سے ذرائع اختیار کریں گے؟ ظاہر ہے کہ وہ بھی ہر گز جائز نہیں ہوں گے۔

اگرحکومت کے پاس زمین کی کمی ہو تو ذاتی پلاٹوں اور گھرو ں کی جگہ اپارٹمنٹس بناکر دے اور اسی طرح کم ازکم سہ منزلہ شاپنگ پلازے بنائے جن میں لفٹوں کے علاوہ آرام دہ اور کشادہ سیڑھیاں ہوں تا کہ ہمارے یہاں عموماً لفٹوں کی جو مینٹینینس نہیں ہوتی یا بجلی کا بریک ڈاؤن ہوتا ہے تو عوام کو پریشانی نہ ہو۔ لفٹوں میں بھی ایسا خود کار نظام ہونا چاہیے کہ بجلی کی تعطلی کی صورت میں بھی وہ کم ازکم کسی ایک منزل پر آکر از خود کھل جائیں۔ اچھی حکومتوں کو عوام کے لیے اولاد کی طرح سوچنا چاہیے۔ ہر علاقے مین جمعہ بازار کے لیے ایک جگہ مختص کی جائے جس میں شیڈ بنے ہوں خواہ دیواریں نہ ہوں۔ تا کہ شامیانے لگانے نہ پڑیں۔ چھت بنی ہوئی ہو۔ ویسٹ ڈسپوزل کے لیے بڑے بڑے کچرا دان ہوں۔ پانی کی فراہمی کی جگہ ہو۔ عوام کی سہولت کے لیے پورے ملک میں ہر پبلک پلازے کے ساتھ عوامی بیت الخلاٰ بھی ہونے چاہییں۔

اب جبکہ اتنی توڑ پھوڑ ہو چکی ہے تو نئی تعمیرات بھی ہوں گی۔ حکومت سے یہ درخواست ہے کہ پاکستان میں ایسا عمارتی نظام متعارف کروایا جائے جس میں زلزلے کی صورت میں عمارتوں کو کم ازکم نقصان کو یقینی بنا کر جان و مال کا تحفظ ہو سکے۔ اور نئے شہر نئی آبادیاں بناتے وقت ایک معیاری نقشہ بنایا جائے جس میں گھٹن آمیز اور تنگ محلے نہ بنیں بلکہ کشادہ ا ور ہوا دار علا قے وجود میں آ ئیں۔ گھر روشن ہوادار ہوں۔ جن کا نظام فطرت سے قریب ترین ہو جن میں مصنوعی انرجی جیسے بجلی اور گیس ے بغیر بھی گزارے کی صورت ہو۔ صحن ایسے ہوں کہ بوقت ضرورت گھر مین لکڑیوں کے چولہے بھی جلائے جاسکتے ہوں۔ تاکہ گھٹن کی وجہ سے خوامخو اہ پنکھے اور ایئیر کنڈیشنز چلانے کی ضرورت نہ پڑے۔ چھتیں اونچی ہوں۔ کمرے روشن اور کھلے ہوں تاکہ بجلی کم سے کم استعمال ہو۔ خیریہ تو ضمنی باتیں تھیں۔ تاکہ نیا پاکستان عہد حاضر کے تقاضوں اور معیاروں کے مطابق ہو۔

اصل بات یہی ہے کہ تجاوزات ہٹانے کا کام جس طرح ہونا چاہیے ویسے نہیں کیاجا رہا۔ پورے ملک کے عوام پریشان ہیں۔ آپ تو پہلے ہی یہ بات جانتے ہیں کہ عوام کی پریشانی کا خیال کرنا ان کے روزگار اور معاش کا خیال کرنا حکومت کا فرض ہے۔

شہروں کی تزئین ضرور کریں لیکن کسی غریب کی روٹی روزی چھین کر نہیں۔
ہر علاقے کی تجاوزات ہٹانے سے قبل وہاں کے مکینوں کو کچھ نہ کچھ متبادل پہلے ضرور ملنا چاہیے۔ ہر درد مند دل رکھنے والا یہی کہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).