کھلکھلا کے ہنسنا اور کھل کے رونا!


نواز شریف نے نیب پیشی کے دوران صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت میں ایک سوال کے جواب میں یہ معنی خیز جملہ کہا کہ ہنسنا کیسا ہم تو کھل کے رو بھی نہیں سکے۔ اہلِ درد جانتے ہیں کہ اس مختصر سے جملے میں درد و کرب کی کتنی گہرائیاں، محرومی و نامرادی کی کتنی وسعتیں، رنج و حرماں بختی کی کتنی سلوٹیں، ہجر و فراق کی کتنی صدیوں کی تلخیاں، ناسپاسی اور نارسائی کی کتنی پہنائیاں، غم و اندوہ کی کتنی انگڑائیاں، اضطراب و بے قراری کے کتنے خون آلود دکھڑے، بے یقینی اور بے اعتباری کے کتنے ہولناک تپھیڑے، بے بسی اور بے کسی کے کتنے بے مہر موسموں کی سختیاں اور جدائی کی کتنی خلشیں پنہاں ہیں۔

ذرا یہ بھی دھیان میں رہے کہ نارسائی کی گھمبیرتا میں ڈوبا یہ جملہ وہ آدمی کہہ رہا ہے جو عزت، دولت اور شہرت کے کئی آسمان سر کر چکا ہے۔ احساس محرومی میں غلطاں و پیچاں یہ جملہ وہ آدمی بول رہا ہے کہ لاکھوں لوگ جس کی جنبشِ ابرو کے منتظر رہتے تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف بولتا نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ نواز شریف کے اس ایک جملے میں جہان معی چھپا ہوا ہے۔ ان کا یہ جملہ اگر خالص انسانی سطح پر دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ جملہ ہمارے نظام کی چیرہ دستیوں اور سفاکیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کا یہ جملہ ضبطِ غم، سوز و گداز اور رقت قلب کا سچا آئینہ دار ہے۔

اب تو ضبطِ غم نے پتھر کر دیا ورنہ فراز
دیکھتا کوئی کہ دل کے زخم جب آنکھوں میں تھے

خوشی میں ہنسنا اور غم میں رونا انسانی فطرت میں شامل ہے۔ رونے کا عمل صدیوں پرانا ہے۔ اس کا سلسلہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو روتا ہوا اس دنیا میں آتا ہے۔ اساطیری اور تاریخی کہانیوں میں آتا ہے کہ اسیس کے راہب فرانسس نے اتنے آنسو بہائے کہ وہ اندھا ہو گیا۔ اللہ کے برگذیدہ پیغمبر حضرت یعقوب علیہ سلام کا گریہ بھی تاریخی حقیقت ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے۔ حضرت یعقوب علیہ سلام اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ سلام کی جدائی میں اتنا روئے کہ بینائی جاتی رہی۔ شاید شاعر نے ایسے ہی کسی کسی موقعے کے لیے کہا تھا کہ

ہم رونے پہ آجائیں تو دریا ہی بہا دیں
شبنم کی طرح ہمیں رونا نہیں آتا

تاریخ اسلامی میں امارات غرناطہ کے آخری تاجدار ابو محمد عبداللہ کے آنسو بھی مشہور ہیں کہ جس نے الحمرا سے رخصت ہوتے وقت اپنی بے بسی کا ماتم کیا تھا جس پر اس کی سن رسیدہ ماں نے جو تاریخی جملہ کہا تھا وہ تاریخ کے صفحات پر نقش ہو کر رہ گیا ہے۔ انسان تو کجا سخت جان جانور بھی روتے ہیں۔ مضبوط سے مضبوط اعصاب کا مالک انسان بھی کبھی نہ کبھی آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ رونے سے انسان کے جذبات کی تطہیر ہو تی اور دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ آنسوؤں کی بارش میں دھل کر انسان کی روح کی میل کچیل اتر جاتی ہے۔ رونے سے طبیعت سنبھل جاتی ہے۔ بقول شاعر

آنسو سے جو بھڑاس تھی دل کی نکل گئی
آنسو بہائے چار طبیعت سنبھل گئی

نواز شریف بھی اپنی اہلیہ کی موت پر دل کھول کر رونا چاہتے تھے۔ ان دونوں کی مثالی رفاقت کی داستان کم و بیش نصف صدی کو محیط تھی۔ اس نصف صدی کے قصے کے آخری لمحات بہت دل گرفتہ اور تکلیف دہ تھے۔ میاں صاحب کو ناکردہ جرم کی پاداش میں پابند سلاسل کر دیا گیا تھا اور ان کی وفا دار اور مخلص رفیقہء حیات سات سمندر پار حیات مستعار کی آخری سانسیں گن رہی تھیں۔ میاں صاحب کے اندرون میں ایک سخت جنگ جارہی تھی۔ ایک طرف پچاس سالہ رفاقت کی محبت کے تقاضے تھے اور دوسری طرف فرض کی ادائیگی کا معاملہ تھا۔

یہ معرکہ آرائی دیر تک جاری رہی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس مردِ جری نے ذاتی جذبات اور محبت کی معراج کو ملک و قوم اور سیاسی ذمہ داری پر تج کر وطن آکر خود کو حوالہءزنداں کردیا۔ اِدھر میاں صاحب نے قیدِ تنہائی کو گلے لگایا ادھر دیار غیر میں ان کی شریک حیات قیدِ حیات و بندِ غم سے آزاد ہو گئیں۔ میاں صاحب اپنے اسی المیے پر دل کھول کر رونا چاہتے تھے۔ اپنی شریک حیات کے لیے آنسوؤں کے ہار پرونا چاہتے تھے۔ انہیں نمکین پانی کی صورت میں موتیوں کا نذرانہ پیش کرنا چاہتے تھے۔ مگر وقت کے خداؤں نے انہیں ایسا نہ کرنے دیا۔ وہ دکھ کی گھڑیوں میں آنسوؤں کی متاعِ بے بہا کی افادیت سے آگاہ تھے کہ

ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
آنسو بھی تو ماؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

انسان کے رونے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم سماجی و معاشرتی روابط اور تعلقات ہیں۔ انسان اپنے پیاروں کی یاد میں روتا ہے بلکہ خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ رونا اسے دماغی، جسمانی، نفسیاتی اور روحانی حوالے سے تسکین پہنچاتا ہے۔ سائنسی اور طبی لحاظ سے بھی رونے کی بڑی افادیت ہے۔ اگر انسان روئے نہ تو وہ کچھ عرصہ بعد نابینا بھی ہو سکتا ہے۔ آنسوؤں کو خاموشی کی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ شاعر نے بھی کہا تھا

انہیں لفظوں کے آنسو بنتے ہیں
جو زباں سے ادا نہیں ہوتے

ہم نواز شریف صاحب سے اتنا ہی عرض کریں گے کہ اچھا ہوا کہ انہیں آنسو بہانے کا موقع نہیں ملا ورنہ جبر اور جدائی کی آگ تو شاید رونے سے کچھ ٹھنڈی پڑ جاتی مگر اس آگ کو بجھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے جو آنسوؤں کی وجہ سے بھڑک اٹھتی۔ معین احسن جذبی نے ایسی ہی آگ کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے

جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).