مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیا بحیثیت قوم ہمارے لئے باعثِ شرمندگی ہے؟


قوموں کی زندگی میں اچھے بُرے واقعات آتے رہتے ہیں، اور اکثر ایسے سانحات بھی جن پر لوگون کی تجویز کی مطابق شرم سے ڈوب مرنے کا مقام بھی فوراً ہی پیدا ہوجاتا ہے، لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر کب تک ہم بار بار ڈوب ڈوب کر مرتے رہیں گے، تاریخ کا تیز رفتار پہیہ تو بہت سرعت سے بہت دور نکل چکا ہے، پلوں کے نیچے سے کتنا ہی پانی بہہ چکا، اس ناخوشگوار واقع کے بعد اب تیسری نسل بھی بوڑھی ہونے لگی ہے، ہمیں آخر کب تک اپنے ناپسندیدہ زخموں کو کرید تے رہنا چاہیے، کتنی مرتبہ ایک جرم بے گناہی میں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے؟ اور اگر ڈوبنا ہی ہے، تو ہمارے لئے شرم سے ڈوبنے کا مقام بہت وسیع و عریض بنایا جائے، کیوں کہ ہمیں اکیلے نہیں ڈوبنا ہے، اگر ہمیں اس لئے شرم آنی چاہیے چونکہ ہمارا ایک بازو ہم سے ٹوٹ کر الگ ہوگیا ہے، تو میرے ساتھ آئیے، میں آپ کو ٹوٹے ہوئے بازووں کے انبار دکھاتا ہوں۔

ذرا دوسری جنگ عظیم کے بعد کا منظر نامہ دیکھتے ہیں، لہولہان دنیا کے دانشور جمع ہوئے ایک فیصلہ ہوا کہ انسانوں کو زبردستی باندھ کر اپنے ساتھ نہیں رکھا جاسکتا ہے، آج تاریخ اس صدی کو آزادی کی صدی کہتی ہے، اور 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے 57 مالک کے سرحدین تبدیل ہوگئیں، بہت سے ممالک کوآزادی ملی، ( جن میں پاکستان بھی شامل ہے ) بہت سے ممالک کو ٹوٹ پھوٹ کا سامنا کرنا پڑا، بقول اقبال،

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون

اگر علیحدگی اختیار کرلینے، اور سرحدوں میں رد و بدل سے ممالک کے لئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام پیدا ہوجاتا ہے، پہلے تو خود انڈیا کو کیوں شرم سے ڈوب کر نہیں مرنا چاہیے، جس میں سے ٹوٹ کر پاکستان علیحدہ ہوا ہے؟ فرانس، آسٹریلیا، جرمنی، سامراجی طاقتوں کے نام گنتے جائیے، ایک بے رحم تاریخی پیش قدمی نے ان سب کے تار عنکبوت کو تار تار کردیا، اج ان کی گنتی بھی لوگوں کو یاد نہیں ہے

میں دشمنان پاکستان کو چیلنج کررہا ہوں، میری بات کا جواب دیں، اگر کوئی ہمارے ساتھ خوش نہں ہے، الگ ہونا چاہتا ہے، تو یہ شرم کی بات کیوں ہے؟ کیا ہمارے گھروں میں والدین کی وفات کے بعد بھائی علیحدہ نہیں ہوتے ہیں؟

خود انڈیا بھی پہلے سلطنت برطانیہ کا حصہ تھا، جس کی سرحدیں اتنی بڑی تھی کہ وہان سورج غروب نہین ہوتا تھا، برطانیہ اب سکڑ کر ہمارے پنجاب جتنا ہی رہ گیا ہے، یعنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔

کالم طویل ہوجائے گا، ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے ہمارے پڑوس میں سپر پاور روس ٹوٹ پھوٹ کر 9 ریاستوں مین تقسیم ہو چکا ہے، میں اللہ کے فصل سے پورے 57 مالک کے تیا پانچے گنوا سکتا ہوں، لیکن پہلے مشرقی پاکستان کی طرف چلتے ہیں۔

بھائی اس کی تشکیل ہی ایسی تھی، ایک ہزار میل دور، کلجر اور زبان کے لحاظ سے بالکل الگ، ایک چالاک اور چابک دست قوم، اگر وہ ہم سے علیحدہ ہونا چاہتی ہے، تو اس میں ہمارے لئے شرم کی کیا بات ہے، اور اگر شرم کی بات ہے، تو کب تک ہم اپنے زخمون کو چاٹتے رہیں، انھیں کھرچتے رہیں،

لہزا مشرقی پاکستان کی علیحدگی، ایک معمول کا عمل، ایک قابل افسوس واقع، تاریخ کا ایک بے رحم اور سفاک باب“ لیکن زخموں کو مندمل ہونے دیں، نئی نسل میں احساس کمتری پیدا کرنے کے عمل کو اب رُک جانا چاہیے، بس بہت ہوچکا، اب سانحہ مشرقی پاکستان کو بھول جائیں، انھیں با دل ناخواستہ تسلیم کرلیں، جیسے برطانیہ نے برصغیر کی تقسیم کو تسلیم کیا ہے۔

ہم سے الگ ہونے والوں کو جس پٹ سن پر اتنا ناز تھا، نائیلون کے مصنوعی ریشے کی ایجاد نے سارا نقشہ ہی تبدیل کردیا، آج دنیا میں وہ پٹسن دو کوڑی کی بھی نہیں رہ گئی ہے، بس اب وہ صرف بچے ہی زیادہ پیدا کرتے ہیں، کمزور، نحیف، غیر ہنر مند، اب کچھ ہی عرصہ بعد ہہ پیداوار بھی غیر مطلوب ہونے جارہی ہے، آج ان کی پہچان دنیا بھر مین چیپ اور سستی اور گھٹیا لیبر اسپلائر کنڑی کی رہ گئی ہے، اور ابھی قدرت کے مزید فیصلے بھی متوقع ہیں

کب نظر میں ائے گی گل رنگ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے، کتنی برساتوں کے بعد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).