اردو ہم شرمندہ ہیں


پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اس بات سے تو ملک کا بچہ بچہ واقف ہے مگر کیا آپ کو معلوم ہے کے ملک کے کل حصے میں کتنے فیصد لوگ اردو زبان کو اپنی پہلی زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں؟ خود دار اور باوقار قومیں ہمیشہ اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی زبان کو سینے سے لگا کر رکھتی ہیں، اس کی قدر کرتی ہیں اور اپنی زبان پر فخر کرتی ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے اس کی قومی زبان ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔ اگر آپ نظر دوڑا کر دیکھیں تو آپ کو کوئی بھی ایسا ملک نہیں ملے گا جس نے کسی دوسری زبان کو اپنا کر ترقی حاصل کی ہو۔

مگر افسوس کے ساتھ ملک پاکستان میں کچھ اور ہی رواج ہے یہاں کے باشندے اپنی زبان پر فخر کرنے کے بجائے، اس کو اپنانے کے بجائے اس سے دوری اختیار کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے آج ملک کی کل آبادی کا صرف 8 فیصد اردو زبان کو دیگر زبانوں پر ترجیح دیتا ہے۔ دفتری زبان انگریزی ہے اور اردو بولنے والے کو نچلے طبقے کا سمجھا جاتا ہے جبکہ انگریزی زبان کا ماہر خوب سراہا جاتا ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ انگریزی زبان اور بیرون ملک کے دیگر زبانوں کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ ہے اور انسان جتنی زیادہ زبانوں سے واقف ہو اتنا فائدہ مند ہے مگر یہ اس صورت میں قابل قبول ہے جب انسان اپنی زبان پر عبور حاصل کرلے۔

آج ملک پاکستان بسنے والے لوگوں کی اکثریت انگریزی زبان سیکھنے کی لگن میں نہ تو ڈھنگ سے انگریزی بول سکتے ہیں نہ ہی اردو۔ اگر ان کو اردو میں لکھی کوئی خبر یا تحریر پڑھنے کو دے دیں تو وہ اس کی کمر ہی توڑ کر رکھ دیں۔ بین الاقوامی معاملات اور دیگر علوم و فنون حاصل کرنے کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جانے کے لئے دیگر زبانوں کی بالکل ضرورت ہے مگر ہماری اپنی زبان اردو کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ترکی ہو یا جاپان، چین یا جرمنی یہ تمام ممالک ہر معاملے میں اپنی قومی زبان کو فوقیت دیتے ہیں۔

جدید چین کے بانی ماؤزے تنگ انگریزی کی اہمیت سے خوب علم رکھتے تھے مگر انہوں نے ہمیشہ اپنی زبان کو اہمیت اور فوقیت دی اور کبھی انگریزی نہیں بولی۔ یہاں تک کے اگر ان کو کوئی لطیفہ انگریزی میں سنایا جاتا تو ان کی آنکھوں کی پتلیاں تک نہ ہلتی اور اگر وہ ہی لطیفہ چینی زبان میں سنایا جاتا تو وہ خوب ہنستے۔ ان کا ماننا تھا کہ ہماری چینی زبان گونگی نہیں ہے اس لئے ہمیں کسی دوسری زبان کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کا کبھی ترکی جانا ہوا ہو تو آپ اس بات سے خوب واقف ہوں گے کہ ترکی میں ترکی زبان کے بغیر گزارا نہیں ہے۔

وہاں کے لوگ اپنی زبان سے اتنا لگاؤ رکھتے ہیں کہ انگریزی زبان کے روزمرہ استعمال ہونے والے الفاظ کا بھی علم نہیں رکھتے۔ ترکی وزیراعظم طیب اردگان جب پاکستان تشریف لائے تو سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے ترکی زبان میں ہی خطاب کیا اور ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی واضح کردیا کہ ذہین بنو انگریز نہیں۔ طیب اردگان نے ترکی زبان میں خطاب کرتے ہوئے بتا دیا کہ کسی ترقی یافتہ قوم کی پہچان اس کی غیرت ہوتی ہے انگریزی نہیں۔

مگر پاکستانی قوم تو اس وقت حالات ایسے ہیں کے اگر ہمارا کوئی لیڈر یا کھلاڑی بیرون ملک اردو میں بات کرلے تو ہم اس کا خوب مذاق اڑاتے ہیں اور شرم سے دوب جاتے ہیں۔ جس ملک میں خوبصورتی کا معیار گورا رنگ، تعلیم حاصل کرنے کا مقصد فقط انگریزی ہوں تو اس ملک میں صرف انگریز اور غلام ہی پیدا ہوں گے ذہین اور غیرت مند نہیں۔ کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر تعلیم حاصل کرنے کا مقصد انگریزی زبان ہے تو کسی انگریزی کو بھلا اسکول جانے کی کیا ضرورت؟

اگر آج ہم تنزلی کا شکار ہیں، ایک غلام قوم ہیں اور جدید علوم و فنون کی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں تو اس کی ایک بہت بڑی وجہ اپنی قومی زبان کو ترک کر دینا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نہ تو کوئی قابل ذکر سائنسدان، کچھ نیا ایجاد کرنے والا انجینئر اور جدید تحقیق کرنے والا ڈاکٹر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔

سید اریب نسیم
Latest posts by سید اریب نسیم (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).