سپورٹرز گدھے نہیں ہیں


جیو ٹی وی کی فلم ”ڈونکی کنگ“ میں ایک جملہ ”ہم گّدھے ہیں اور گّدھے ہی رہیں گے“ کو با آسانی ایسے کارکنان اور سپورٹرز کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے جو باوجود اپنے لیڈر کے تمام ظاہری برائیوں کے اس کے ہی گنُ گاتے نظر آتے ہیں۔ جن کی کوئی مجبوری ہو تو سمجھ آئے بھی مگر جو صرف قحط الرجال کے با عس ایسا کرے ان کی ذہنی حالت پر شبہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی بدلتی سیاسی صورتِ حال کا گہرا اثر ان سپورٹرز پربھی پڑا ہے۔ ان کو بھی شعور آنے لگا ہے کہ بجائے اندھی تقلید کے کچھ اپنے لیڈر کے کاموں کو دیکھ کر بھی فیصلہ کر لیا جائے۔

کارکنان کا سیاسی شعور جب بیدار ہونے لگا تو ان سیاسی جماعتوں کو مشکلات ہونے لگی جو عرصہَ دراز سے اپنے انہی سپورٹرز پر بھروسا کرتی تھی۔ کسی تدفین شدہ لیڈر کا نعرہ لگا کر ووٹ لینے اور بعد میں نوٹ کمانے کے کاروبار کا کیا بنے گا۔ پھر اگر یہ سپورٹرز عقل استعمال کرنے لگے تو۔ پھر تو یہ گدھے صاف پانی کا سوال کرنے لگے گے کہ حضور وہ آر او پلانٹ کا کیا بنا؟ محض خانہ پری کے لیے چند ناکارہ آر او پلانٹ لگا ئے گے۔ اس ضمن میں ملنے والی کثیر رقم کا کیا بنا؟ انکم سپورٹ پروگرام سے کتنے لوگوں کو نوازا گیا ان میں سے واقعی کتنوں کوضرورت تھی اس کی اور کتنے آپ کے اپنے ساتھی تھے۔ کیا تمام رقم اس مقصد کے لئے صحیح خرچ ہوئی؟ اگر سپورٹرز ایسے سوال پوچھنے لگے تو بے وقوف بنا نے کے لئے کن گدّھوں کو استعمال کرے گے۔

سپورٹرز پھر یہ بھی پوچھنے لگے گے کہ حضور آپ نے اپنے صوبے میں جتنے ترقیاتی منصوبے شروع کیے ان میں سے کتنے شفاف تھے۔ کتنے منصوبے ایسے ہوں گے جن کے پیچھے اصل مقصد صرف اپنی کمپنی کی مصنوعات کی فروخت اور اپنے من پسند ٹھیکیداروں کو نوازنا تھا۔ گنے کے کاشتکاروں کی شنوائی کی بجائے اپنی شوگرملز کو فائدہ پہنچایا گیا۔ اپنے شہر کو پیرس بنانے کے دعوے میں کتنے فیصد سچائی ہے اور آپ کتنے کامیاب ٹھہرے کیونکہ کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ تو عوام کرتے جن میں آپ کے سپورٹرز بھی شامل ہیں۔ کیسے چھوٹے سرمایہ کار کا پیسہ ڈوبتا گیا اور آپ کی کمپنیاں ترقی کرتی گئی۔

مذہبی جماعتوں نے اپنے سپورٹرز کو سب سے زیادہ بیوقوف بنایا اور فائدہ اْٹھایا۔ سپورٹرز اپنے مذہبی قائدین سے عقیدت و احترام کے ساتھ پوچھ سکتے تھے کہ پاکستان کا سیاسی نظام تو اسلامی نظام کے منافی ہے تو آپ کیسے الیکشن لڑنے کی اور تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ الیکشن میں خرچ کیا جانے والا کتنے غریبوں کے کام آ سکتا تھا کیونکہ آپ تو سب سے ہٹ کر اسلام کی بات کرتے ہیں۔ آپ کا مقصد صرف سیاست اور شہرت ہے یا واقعی آپ اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں ہم کیا سمجھے۔

لسانی جماعتوں کی گھن گرج بھی سپورٹرز ہی کی بدولت ہے۔ ذرا جو یہ غور کریں کہ ہماری حالتِ زار تو بدلی نہیں مگر باوجود محکوم و مظلوم طبقے کی نماِئندگی کے دعوے کے لسانی جماعتوں کے سربراہان چم چم اور لش پش کرتی گاڑیوں میں آتے ہیں۔ جن کے بارے میں ہمیں بتلایا جاتا ہے یہ ہمارے حقوق پر قابض ہیں۔ انھی سے ملاقاتیں کی جاتیں ہیں اور قہقہے لگا کر میڈیا ٹاک کی جاتی ہے۔ بعد میں سپورٹرز کو تسلی دی جاتی ہے ہماری جنگ آپ کو حقوق دلوانے تک جاری رہے گی۔ جنگ کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ ہم آپ کے مسائل کے لئے ہی بیٹھے تھے۔

کچھ بات نئی حکومت کی جائے تو ان کے سپورٹرز بھی سوال کرنے کی جسارت نہیں کرتے کہ حضور اب تو حکومت بھی اپنی۔ تو پھر وہ جادو کا چراغ کہا گیا جس کے دعوے انتخابی مہم اور دھرنے میں کیے گئے تھے۔ اگر معیشیت اتنی ہی زبوں حال تھی تو کیا آپ کو معلوم نہیں تھا؟ یا تو آپ اُس وقت جھوٹ بول رہے تھے یا اب غلط بیانی کر رہے ہیں۔ سادگی کے دعوے بھی ہوا ہو گئے جب وزیروں کے مشیر پھر ان کے بھی ترجمانوں کو تعینات کرکے خالی خزانے پر بوجھ ڈالا گیا۔ تمام جماعتوں کے سپورٹرز کو اپنی جماعتوں سے سوال کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ گّدھے سپورٹرز، پٹواری، یوتھیے جیسے القابات سے نوازا نہ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).