مسلکی اختلافات پر رائے زنی کا حق


سوشل میڈیا پر لکھنے کی آزادی ایسی میسر ہوئی کہ پڑھے لکھے، کم پڑھے، ان پڑھ، پروفیشنل، عام اور متوسط لوگ سب ماہرِ سیاسیات، ماہرِ اقتصادیات، ماہرسماجیات، ادیب، نقاد، صحافی، عالم، مفتی اور تجزیہ نگار بن گئے اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کی تحریروں کی زبان، لہجہ، اسلوب، جملوں کی ساخت، مضمون کی افادیت، موقع، اور مناسبت کو چیک کرنے کے لئے کوئی سنسر بورڈ، ایڈیٹر یا کوئی ذمہ دار شخص نہیں ہوتا جو یہ طے کرے کہ یہ صحیح ہے یا غلط، مناسب ہے یا غیر مناسب، نفرت انگیز ہے یا رواداری کی تلقین کرنے والی، توڑنے والی ہے یا جوڑنے والی۔ اس وقت یہ خبر یا مضمون لگانا مفید ہوگا یا مضر؟ سوشل سائٹس نہ ہوئیں شتر بے مہار ہو گئے۔

یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ ایک صاحب نے غامدی صاحب کے خلاف فتویٰ پوسٹ کیا تو دوسری طرف ایک وھاٹس ایپ گروپ میں مودودی صاحب رح پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ تیسری طرف ایک اور ”روشن خیال مفکر“ نے معراج کو دیو مالائی قصہ کہا۔ جب میں نے قرآن کریم کی آیت سبحان الذی اسری کا ذکر کر کے جواب مانگا تو کوئی جواب نہیں۔

مذکورہ بالا مسائل علمی نوعیت کے ہیں ان کو سوشل میڈیا جیسے عوامی پلیٹ فارم پر لانا کہاں تک مناسب ہے؟ فقہ کی نوعیت قانون کی ہے۔ وکلاء بہت ساری باتیں مفروضہ کو سامنے رکھ کر سمجھتے ہیں اسی طرح فقہ پڑھنے والے طلباء کو مختلف زاویوں سے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے مقصد اس سے طلباء کے اندر منطقی انداز فکر پیدا کرنا ہوتا ہے جسٹ فار اکیڈمک پرپز۔ مثال کے طور پر کوئی شخص صحرا میں بھٹک گیا یا کوئی اور صورت پیش آئی جس کی وجہ سے کھانا پانی کے بغیر جان جانے کی باری ہے تو ایسی صورتحال میں رمق باقی رکھنا پہلا فرض ہے اس لئے کچھ نہیں ملے تو اپنا پیشاب پی کر یا مردار کا گوشت کھا کر اپنی زندگی بچائے اب اس سلسلے میں درس میں بہت سارے مفروضوں پر بحث ہوتی ہے اسی ضمن میں ایک سعودی مفتی نے نقل کیا کہ کچھ میسر نہ ہو تو اپنی بیوی کا پستان چوس لے مگر اپنی جان بچانے۔

اب سیاق و سباق سے ہٹ کر کسی نے صرف پستان کی بات پوسٹ کی پھر کیا تھا اسلام اور علماء کے خلاف لوگوں میں نفرت اور ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے بسا اوقات لوگ دشمنی یا حسد کی وجہ سے بھی فتویٰ لیتے ہیں اور اس کی تشہیر کرتے ہیں۔ علامہ اقبال رح کے خلاف ان کے ہی محلہ کے ایک بدخواہ نے ایک مسجد کے امام جو بغیر تحقیق اور غور و خوض کے فتویٰ دینے کے لئے مشہور تھے ان سے فتویٰ لیا اور اس کی خوب تشہیر کی۔

ایک دوسری قسم ان نمک حرام مولویوں کی ہے جو پرانے فتاوی یا فقہٰ کی کتابوں میں سے کچھ ایسے مسائل یا فتوے نکال کر چند سکوں کے عوض چینل والوں کو دیتے ہیں جس سے غیر مسلموں اور مسلم لبرلز کو اعتراض کرنے یا مذاق اڑانے کا موقع مل جاتا ہے۔ بات عریانیت کی کہی گئی ہے تو اسے عورتوں کے حقوق کے ساتھ ظلم کا غلاف چڑھا کر چینل والے پیش کریں گے اور ڈیبیٹ میں پینلسٹ ہوں گی مس انڈیا مس ورلڈ حقوق نسواں کی علمبردار آزاد خیال خواتین۔ کوئی شریعت کی جانکار خواتین کو کیوں نہیں بلایا جاتا جو لباس کے مافیہ و ما علیہ کو ٹی وی پر برملا بتائے۔ یہ بتائے کہ جنسی زیادتی کی دیگر وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ عریانیت بھی ہے۔ یہ بتائے کہ انصاف پسند خواتینِ عالم خوب سمجھتی ہیں کہ ڈیسنٹ ڈریس کوڈ کیوں ضروری ہے اور اسلام ٹرانسپیرنٹ اور ”سی تھرو“ اور سلم فکس شوئنگ ایوری کٹ کی اجازت کیوں نہیں دیتا۔

سوشل سائٹس پر ہر شخص جسے چند الفاظ لکھنا آتا ہے تبصرہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اسلامی کتابوں اور معلومات پر برہمنوں منووادیوں کی طرح مسلمانوں کے کسی ایک طبقہ کی اجارہ داری ہے۔ مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ پڑھنا شرط ہے۔ ایک بہت بڑا انجنیئر بی ٹیک، ایم ٹیک اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود اپنا اور اپنے گھر والوں کا علاج خود نہیں کرتا اگرچہ وہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی ہے، لیکن علاج کرنے کی تعلیم جس نے حاصل کی ہے اسی سے یعنی میڈیکل ڈاکٹر سے علاج کراتا ہے۔

ڈاکٹر اپنے گھر کی تعمیر کے لئے کسی انجنیئر آرکیٹیکٹ کی خدمات حاصل کرتا ہے مگر جب باری اسلام کی آتی ہے تو یہ تمام اصول پریکٹس رواج درکنار کر کے ہر کس و ناکس اپنی اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ”دھوکہ دہی کا کیس بنتا ہے یا نہیں ہتک عزت کا مقدمہ اس کی بات کی بنیاد پر کر سکتے ہیں یا نہیں“ اس کے لئے آپ کسی قانون دان اور ماہر وکیل کی رائے لیتے ہیں کنسلٹیشن فیس ادا کر کے مشورہ مانگتے ہیں لیکن مظلوم اسلام اور اسلامی مسائل پر خود مفسر، محدث، مفتی، عالم، فقیہ اور مناظر بن جاتے ہیں!

اور اس حد تک برہنہ گفتاری پر اتر آتے ہیں کہ معتبر دینی اداروں کو منہدم کرنے کی اپیل کرنے لگتے ہیں اس لئے کہ آپ صرف وہ سننا چاہتے ہیں جو حق ناحق آپ کے دل و دماغ میں راسخ ہے۔ بالفاظ دیگر آپ ”بھکت“ ہیں۔ مودی سرکار نے لغت سعیدی اور لغت کشوری اور مختلف زبانوں کی ڈکشنریوں پر بھی ایک احسان کیا ہے اور وہ ہے لفظ ”بھکت“ کا اضافہ۔ یہ اردو کی ” اندھی تقلید“ کے مترادف نہیں ہے۔ بھکت میں ایک خاص قسم کی شدت ہے جو جنون کی حد تک عقیدت کے جذبے سے سرشار ہے۔ فالوور بھی اس کا متبادل نہیں ہے اس لئے کہ متبع بھی کسی حد تک اپنی عقل کا استعمال کرتا ہے۔ سراہنے والا بھی اس کا بدیل نہیں ہے اس لئے کہ جہاں تک وہ آپ کے کام سے خوش اور مستفید ہوتا ہے وہ سراہتا ہے فائدہ ختم۔ سراہنا بند۔

اگر کسی مکتب فکر کا کسی شخصیت یا نظریہ سے اختلاف ہے تو کسی کو کیا حق ہے کہ اس کو لعن طعن اور اس کے خلاف دشنام طرازی کا لہجہ اپنائے۔ کل قیامت کے روز آپ سے آپ کے اعمال کے بارے میں سوال ہوں گے آپ دوسروں کے اعمال کا جوابدہ نہیں ہوں گے۔ اللہ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ واضح کر دیا ہے : لا تزر وازرة وزر أخرى۔ یعنی ( کل قیامت کے دن ) کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ”تو پھر آج آپ کیوں اٹھانے کی کوشش کرکے امت میں انتشار کا سبب بن رہے ہیں۔ جہاں تک دینی اداروں کی بات ہے تو اپنی علمی تحقیق کی روشنی میں کسی کے سوال کا جواب دینے کے وہ پابند ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).