بچوں کی تربیت اور روک ٹوک


ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنا بچپن چھوٹی بڑی شرارتیں کرتے گزارا۔ کس کس کو یاد ہے کہ ہم بچپن میں نصاب کی کتابوں میں کہانیاں رکھ کر پڑھتے تھے۔ کتنوں کو یاد ہے کہ والدین کے لاکھ منع کرنے کے باوجود جاسوسی ڈائجسٹ، خواتین ڈائجسٹ اور ”تین عورتیں، تین کہانیاں“ پڑھتے تھے۔ یہاں غور کرنے کی بات والدین کی طرف سے منع کرنا ہے۔ اگر ہم نے پڑھنا ہی تھا تو دینی و اصلاحی کتب اور نصاب کی کتابیں بھی پڑھ سکتے تھے مگر وہ تجسس کی کشش تھی کہ ہم نے تقریباً ہر وہ کام کیا جو ہمارے والدین نے منع کیا۔

غلطی صرف ہماری ہی تو نا، تھی بلکہ دونوں طرف تھی۔ والدین گھر میں ایسی کتب اور رسائل نہ لاتے یا کم از کم ہماری پہنچ سے دور رکھتے تو بھی افاقہ ہوسکتا تھا۔ والدین نے شروع سے طریقہ یہ رکھا کہ برف دھوپ میں رکھ کر کوشش کی کہ وہ پگھلے نہ۔ بہرحال اسے پگھلنا تو تھا۔ صورتحال آج بھی اس سے مختلف نہیں۔ ہم اپنے بچوں کے سامنے موبائل استعمال کرتے ہوئے قہقہے لگاتے ہوئے دنیا و مافیا سے بے خبر ہوجاتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ وہ موبائل ہاتھ میں نہ لیں۔

ایسے ہی جیسے تمام کتب اور رسائل ہمارے لئے نقصان دہ نہیں تھے۔ موبائل اور تمام سوشل میڈیا بچوں کے لئے نقصان دہ نہیں۔ غلطی ہم بھی وہی کررہے ہیں۔ جیسے ہمیں اچھی کتب مہیا نہ کرکے ہمارے شوقِ مطالعہ کو مثبت طرف نہ لگایا گیا۔ ہم بچوں کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے محروم کررہے ہیں۔

سوشل میڈیا اور ابلاغِ عامہ دونوں میں سے ایسے پروگرام جو بچوں کے لئے مفید ہیں بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھیں تو وہ چیزوں کے مثبت استعمال کو جان سکیں گے۔ رویے میں تبدیلی ایک ایسا عمل ہے جس پر دو جمع دو چار کا فارمولہ لاگو نہیں ہوتا۔ ہر فرد، منفرد ہوتا ہے لہٰذا اس کی تربیت کے طریقے بھی مختلف ہی ہوں گے۔ اور جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی کہ میرا بیٹا شیرینی کھاتا ہے انہوں کے کہا کل آنا۔ جب اگلے دن آئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچے کو کہا کہ شیرینی مت کھایا کرو۔ اس عورت نے پوچھا کہ آپ نے کل کیوں نہیں منع کیا تو فرمایا کل تک میں خود شیرینی کھاتا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ بچے کو خود وہ کردار بن کر دکھائیں جس کی آپ اس سے توقع کرتے ہیں۔

ایک اہم نکتہ ہم اپنے بچوں کو ڈانٹتے یا مارتے ہیں اور ہمارے والدین ہمیں ٹوکتے ہیں تو بجائے اس کے کہ ہمارے رویہ معذرت خواہانہ ہو ہم کہتے ہیں ”ہمارے بچے ہیں ہم سے زیادہ ان سے کسی کو پیار نہیں ہوسکتا“۔ تو جناب والدین سے زیادہ پیار کا دعویٰ تو کوئی بھی نہیں کرسکتا اور نا ہی ایسا کوئی دعویٰ سچا ثابت ہوسکتا ہے مگر ہم بچوں کے سامنے اپنے والدین کو ٹوک کر ان کے سامنے ایک ایسا کردار پیش کرتے ہیں جو والدین کا نافرمان ہے۔ سائنس اور روحانی دونوں اصولوں کے تحت ہم ایسے کسی بھی بچے سے، جس کی سامنے والدین کی نافرمانی کرتے ہیں کل ایک ”فرمانبردار اولاد“ بننے کی توقع نہیں رکھ سکتے۔

اگر آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ بچے قیمتی سرمایہ ہیں تو یا ان پر اپنے پیسے کے ساتھ ساتھ وقت بھی خرچ کیجئے۔ ہمارے پاس اپنی معاشرتی، معاشی، دینی مصروفیات اور ذاتی تفریح کے بعد جو وقت بچتا ہے وہ ہم نے بچوں کے لئے رکھا ہے۔ بچوں کے لئے مناسب وقت نکالنا تمام والدین کا فرض اور بچے کا حق ہے۔ ایک بہت اہم بات جو میں نے کہیں سنی تھی کہ مائیں بچوں کو کہتی ہیں کہ میں تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی۔ حالانکہ اصولی طور پر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ پوچھ ماں سے ہو گی اگر اس نے پبچے کو دودھ نا پلایا تو۔ قرآن پاک میں کم از کم دو سال تک بچے کو دودھ پلانے کا حکم ہے۔

آج والدین کے پاس رات سوتے وقت کہانیاں سنانے کا وقت نہیں۔ سوشل میڈیا پر اپنی موجودہ حیثیت یا کیفیت (سٹیٹس) روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹ کی جاتی ہے۔ والدین کا شکوہ ہے کہ بچے ٹھیک سے کھانا نہیں کھاتے اگر ایماندارانہ جائزہ لیا جائے تو والدین ٹھیک سے کھلاتے ہی نہیں۔ والدین کی ترجیح بچوں کا اچھا کھانا ضرور ہے مگر اچھی طرح کھلانے پر کوئی توجہ نہیں۔ ہم یا تو کھاتے وقت موبائل ہاتھ میں دے دیتے ہیں چلو کچھ کھا تو رہا ہے جبکہ اس کی توجہ کھانے پر نہیں لہٰذا اس کا جسم اس خوراک سے مطلوبہ غذائیت حاصل کیے بغیر اسے پراسیس کررہا ہے جس کا بچے کی صحت پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑتا۔

بچوں کی تربیت میں سختی کا پہلو جتنا کم ہو اتنا اچھا ہے۔ سختی ناصرف ان کی عزت نفس کو مجروح کرتی ہے بلکہ وہ ان کے مستقبل میں ایک قابل اعتماد فرد بننے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ایسا بچہ ایک ضدی شخصیت کے طور پر ابھرتا ہے جس میں ذاتی وقار جیسا پہلو بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور معاشرے میں اپنے عکس اور تصور کے بارے میں وہ قطعاً بے فکر ہوجاتا ہے اور اپنی مثبت طور پر پہچان کروانے کی بجائے شہرت کی تلاش کرتا ہے اور وہ لائم لائٹ میں رہنے کے لئے ہر مثبت اور منفی رویہ اپناتا ہے۔

خاص کر ہم بھاری فیسیں ادا کرکے بچوں کو گرائمر سکول میں تو پڑھا رہے ہیں مگر گھروں میں آج تک وہی مولا بخش والا طریقہ تعلیم رائج ہے جس کی توجہ سیکھنے پر نہیں پوزیشن لینے پر ہے اور اس کے لئے ہم نے چار پانچ سال کے بچے کو اتنا دبا دیتے ہیں کہ وہ ساری عمر اس دباؤ سے باہر نہیں آسکتا اور ساری زندگی خود کو درست ثابت کرنے کے لئے دوسروں کی نفی کرتا ہے۔

میرے عزیزو! یہ باتیں کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سب والدین اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دیتے۔ ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے بچے بہترین انسان بنیں۔ عرض صرف اتنی ہے کہ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی تربیت کرتے وقت انہیں عملی نمونہ پیش کریں۔ خود ایسے بن جائیں جیسا بچوں سے توقع رکھتے ہیں تاکہ وہ کل ناصرف ہمارے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے قیمتی سرمایہ ثابت ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).