مسیحی پیچھے کیوں رہتے جا رہے ہیں


کچی بستی میں بوٹا مسیح نامی ایک شخص رہتا ہے بوٹا دو کمروں کے بوسیدہ مکان میں اپنے پانچ بچوں کے ساتھ رہتا، پیشے کے اعتبار سے وہ خاکروب اور شراب کا عادی، خاکروبی میں اس نے قدم اپنے باپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد رکھا اس کی بیوی بھی اس ہی پیشے سے وابستہ تھی لیکن جوڑوں کی تکلیف کے باعث اس کی جگہ نوکری اب اس کا بڑا بیٹا کرتا ہے لہذا یہ پیشہ نسل در نسل اس خاندان میں منتقل ہوا۔ اس کے باقی کے چار بیٹے لڑکپن میں تھے لیکن نہ تو وہ سکول جاتے اور نہ ہی ہنر مند تھے بیماری، تنگ دستی، گھریلو ناچاقیاں، تعلیم کی کمی نوجوان نسل کی گمراہی اور شراب نوشی کا کثرت استعمال اس گھر کا کل اثاثہ ہیں۔

بوٹا کی کہانی شاید بہت سے مسیحی گھرانوں کی عکاس ہے لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ وہ قوم جس نے ملک پاکستان میں تعلیم کی ترویج، صحت کی سہولیات، وطن عزیز کے دفاع میں بے پناہ اور بے لوث خدمت کی آج وہ ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے کھڑے ہیں اس کا شاید کوئی ایک درست جواب نہ ہو کیونکہ بہت سے اس عوامل ہیں جنہوں نے حالات کو اس نہج تک پہنچا دیا۔ لیڈر شپ کی کمی، با شعور اور پڑھے لکھے افرادی قوت کی کمی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کی بنیادی وجہ ہیں لیکن اس قوم کے لئے جس نے ملک میں تعلیم کی داغ بیل رکھی ہو لیکن وہ خود ان پڑھ ہوں اور اس کے 80 فیصد افراد صفائی ستھرائی سے وابستہ ہوں حیران کن ہے۔

میں نے اپنے طور سے اس اہم سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جس سے قارئین کھل کے اختلاف کر سکتے ہیں۔
مشنریوں کے جانے کے بعد تقریباً تمام مسیحی ادارے اور بالخصوص مسیحی قوم زبوں حالی کا شکار ہو گئی۔ ایک خاص طبقہ خود کو اشرافیہ میں شمار کرنے لگا اور باقی قوم کی بڑی تعداد پستی چلی گئی اور آج تک پستی ہی آ رہی ہے۔

اگر اس خطے میں مسیحیت کی بات کی جائے تو اٹھارہویں صدی کے آخر میں برصغیر میں مسیحیت کی ترویج میں لگے مشنریوں کو اہم کامیابی تب ملی جب ریورنڈ سموئیل مارٹن نے ایک اچھوت ”دت“ نامی شخص کو بپتسمہ دیا کیونکہ اس سے پہلے مشنریوں کی اس وقت کے اونچی ذات کی ہندوؤں میں تبلیغ کی کوشش زیادہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی لیکن ”دت“ کے بپتسمہ کی مخالفت بھی بہت ہوئی۔

اس کا اظہار سموئیل مارٹن کی بیٹی نے اپنی کتاب کے صفحہ 55 پر بھی کیا ہے وہ لکھتی ہیں کہ ”دت کو بپتسمہ دینے سے پہلے بہت سارے مشنریوں کا خیال تھا کہ اچھوتوں کو بپتسمہ نہ دیا جائے ایک تو رد کیے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان میں قائدانہ صلاحیتوں کی کمی ہو گی اور ہمارے جانے کے بعد یہ کلسیا کی باگ ڈور ہرگز نہیں سنبھال پائیں گے“ ان تمام خدشات کے باوجود سموئیل مارٹن نے دت کو بپتسمہ دیا اور دت نے واپس جا کر اپنے گاؤں میں مسیحیت کی تبلیغ کا کام شروع کیا اور آنے والے تیس چالیس سال کے عرصے میں دت نے چار لاکھ کے قریب لوگوں کو مسیحیت میں شامل کرلیا۔

قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد بہت سارے مشنری واپس چلے گئے اور ان اداروں کی باگ ڈور ان ہی لوگوں کی ہاتھوں میں آہستہ آہستہ جاتی گئی جن کا نہ تو ان اداروں کو بنانے میں کوئی کردار تھا اور نہ ان کے بنانے والے لوگوں جیسا جذبہ۔ نتیجہ ان اداروں کی تنزلی اور اگر کوئی ادارہ چل بھی رہا ہے خدا کے حکم سے تو اس میں براجمان لوگوں کے اپنی قوم کے لئے رویے پر ذرا نظر ڈال لیجیے آپ کو ان مشنریوں کا نصف صدی قبل ظاہر کیا خدشہ ایک حقیقت کا روپ دھارتا نظر آئے گا اور شاید یہ ہی وجہ کہ اچھے لیڈر شپ بھی ہمیں دیکھنے کو نہیں ملی۔

وسیے عجیب صورت حال ہے ہم سرکار سے تو تعلیم کا کوٹہ مانگتے ہیں لیکن ہمارے اپنے مشنری سکول کالجز میں ہمارے اپنے بچے ہی نہیں پڑھ سکتے شاید اس کے لئے بھی ہمیں کوٹہ چاہیے۔ جس ادارے میں چلے جائیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کاٹنا اور اختیارات کی کھینچا تانی اور آپسی لڑائی جھگڑے ہر جگہ دیکھنے کو ملیں گے اور شاید بیماری کی جڑ ہمارے کرسیوں پر براجمان لوگوں کے اپنے ہی لوگوں کے خلاف رویے اور غلامانہ سوچ ہیں۔

بوٹا مسیح اور اس جیسے بہت سے لوگوں کی پسماندگی کی بنیادی وجہ ہمارے اپنے ہی ہیں اگرچہ اس میں قوم کی اپنی غفلت اور حکومتی سطح پر اقلیتوں کی حق تلفی بھی برابر کی شامل ہیں لیکن اگر مسیحی قوم تبدیلی چاہتی ہے تو تبدیلی کا آغاز خود سے کرنا چاہیے اپنے اداروں کے دروازے اپنی قوم بچوں کے لئے کھولنے ہوں گئے تب ہی لیڈر بھی پیدا ہوں گے مسائل بھی ہونا شروع ہوں گئے لیکن آغاز خود سے کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).