جنرل نیازی کی مٹی بھری پستول سے گولی چلانا ناممکن تھا


بنگلادیش پاکستان سے کیوں جدا ہوا؟ اس سوال کے سیاسی، معاشرتی، معاشی، تاریخی، جغرافیائی اورعسکری جہتوں کے حامل بہت سے جوابات ہیں۔

راقم کی پی ایچ ڈی کا تھیسز کیونکہ بنگلادیش میں جاری جنگی جرائم کی عدالت اور منصفانہ حق سماعت سے متعلق ہے لہزا پاکستان کی تاریخ کے اس سیاہ باب سے جڑے بہت سے تاریک پہلووں کا بغور مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آیا۔ مقدمات کے حوالے سے تفصیلی رائے میری بنگلادیش وار کرائم سیریز کے ریسرچ پیپرز اور حال ہی میں انسانی حقوق اور جنگی قانون پر شائع شدہ کتاب میں میرے لکھے ہوئے بک چیپٹر میں پڑھی جاسکتی ہے۔ دوران تحقیق کئی ایسے دلخراش واقعات نظر سے گزرے کہ جنہیں میں چاہتے ہوئے بھی اپنی تحقیق کا حصہ نہیں بناسکا خصوصا دوران جنگ جو حکمت عملی اپنائی گئی اخلاقی اور انسانی معیار پر اس کی کوئی توجیہ ممکن نہیں۔

اس ضمن میں سب سے بڑا کردار بنگلادیش میں آپریشنل کمانڈر جرنل نیازی کے تقرر کا بھی تھا کہ جب سپاہ سالار خود ہی اخلاقی اورعسکری اہلیت سے خالی ہوں تو ان کے ماتحت لڑنے والے دستوں میں کیا جذبہ باقی رہے گا۔

محاظ جنگ پرجنرل نیازی کی سنجیدگی کا اندازہ ان کے اس رویے سے لگایا جاسکتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے محاظ پر بحیثیت چیف ان کمانڈ تعیناتی کے موقع پر جب جنرل خادم نے مشرقی پاکستان کی فوج کی کمانڈ جنرل نیازی کے سپرد کی تو جنرل نیازی نے جنرل خادم سے کہا کہ فوج کا چارج تو آپنے مجھے دے دیا اب یہ بتائیں کہ اپنی داشتاؤں کا چارج کب مجھے دیں گے؟ (See، surrender to witness page 100 ) ایک اور موقع پر جنرل خادم سے کہا کہ ”اب تو اپنی بنگالی گرل فرینڈز کے نمبرز دے دو“ ۔

اندازہ لگائیے کہ ایک فوج جو شکست کے دہانے پرکھڑی ہے کا سپاہ سالار اس نازک موقع پر کس شوق کا اظہار فرمارہا ہے۔ جنرل نیازی کے یہ شوق پہلے سے ہی خاصے مشہور تھے جنگ ہارنے کے بعد جب کمیشن نے جنرل نیازی سے ان کے گلبرگ لاہور کی سعیدہ بخاری اور سیالکوٹ کی شامنی بیگم جو مقامی نائکہ تھیں کے جنرل نازی سے دوستی کے متعلق استفسار کیا تو جنرل نیازی نے جواب دیا کہ میں ڈھاکہ جا کر بہت مذہبی ہوگیا تھا جبکہ ڈھاکہ میں بحیثیت کمانڈنگ افسر ان کی فرمائشوں کا ثبوت خود پاکستانی افسران کی کتابوں میں نظر آرہا ہے۔

اس سے ملتا جلتا اظہارخیال جنرل نیازی نے ایک اور موقع پر کیا جب وہ ایک میٹنگ میں پستول بیلٹ میں اڑسے داخل ہوئے اور دہاڑتے ہوئے کہا کہ ”میں اس حرام زادی قوم کی نسل بدل دوں گا، سمجھتے کیا ہیں اپنے آپ کو۔“ پھر دھمکی دیتے ہوئے مزید کہا کہ ”میں ان کی عورتوں پر اپنے فوجی چھوڑ دوں گا“ جنرل نیازی کہ اس بیان پر کمرے میں خاموشی طاری ہوگئی اور اگلی صبح ایک بنگالی میجر مشتاق جو اس میٹنگ میں موجود تھے نے اس بات سے دل برداشتہ ہوکرباتھ روم میں خود کو گولی مار لی۔ یاد رہے کہ ایسٹرن کمانڈ، پنڈی ہیڈکوارٹرز میں یہ اطلاع بہت پہلے دے چکی تھی کہ بنگلہ فوجی دستوں اور پولیس کی اکثریت پہلے ہی فوج سے بغاوت کرتے ہوئے دشمن سے جا ملی ہے (See, A Stranger in My Own Country: East Pakistan, page 98-99) ۔

راقم نے دوران تحقیق بہت سے سے ایسے افراد جن کا براہ راست تعلق اس جنگ سے تھا کہ انٹروویز کیے، خصوصا نسل بدلنے والے بیان کی حقیقت اوراسکے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے سوالات کیے جن کے جواب نہایت تکلیف دہ تھے۔ ایک ایسے ہی انٹروویو میں ایک صاحب سے سوال کیا کہ بنگالیوں کے خلاف جنسی تشدد کے الزامات میں کتنی حقیقت ہے؟ اس پر وہ بزرگ بتانے لگے کہ ان کے علاقے کا ایک فوجی مشرقی محاظ سے زخمی ہو کر واپس آیا جب وہ اس کی عیادت کے لئے ہسپتال گئے تو زخمی سپاہی نے انہیں بڑے فخر سے بتایا کہ میں بنگالیوں کی نسل بدل آیا ہوں۔ آج بھی بنگلادیش میں ”چلڈرن آف وار“ کی ایک بڑی تعداد حیات ہے اور یہ ”بدلی ہوئی نسل“ پاکستان سے نفرت کا استعارہ بن چکی ہے۔

یہی جنرل نیازی بعد ازاں پریس کانفرنس میں کہتے رہے کہ ڈھاکہ فتح میری لاش پر سے گزر کر ہوگا اورپھر سینہ ٹھوک کر کہتے کہ ہندوستانی ٹینکوں کو یہاں (اپنے سینے پار ہاتھ مار کر) سے گزرنا پڑے گا۔ مگر جب ہتھیار ڈالنے کا موقع آیا تو جنرل جے ایف آر جیکب نے جنرل نیازی کے پستول کا معائنہ کیا، وہ لکھتے ہیں کہ جنرل نیازی کی پستول کا بیلٹ بوسیدہ تھا جبکہ پستول مٹی سے بھری پڑی تھی کہ جیسے اس سے گولی چلانا توایک طرف کبھی استعمال تک نا کیا ہو۔ (See,Surrender at Dacca: Birth of a Nation)

جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا کہ بنگلادیش جدا ہونے کا سبب صرف کسی ایک ادارے یا سیاست دان کی غفلت کا شاخسانہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے بہت سے دیگر حوالے اور محرومیوں کی طویل داستانیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے قوم اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے اور سانحے کہ ہر ہر پہلو اور سطح پر بے لاگ خود احتسابی اپنائے جس کے لئے اپنی تاریخ کا صحیح علم اورغیر جذباتی و منصفانہ تجزیہ اولین شرط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).