میرا ناپاک خون


روح سکون چاہتی ہے مگر سکون کہاں؟ میں نے اپنے رسوا وجود کی کسی بے لباس گرہ میں پنپے بے سروپا وجود کو تیری یاد سے آج بھی منور رکھا ہے۔ مجھے ہوش میں نا لاؤ خدا کے لیے۔ مجھے یہ نیند بہت پیاری ہے۔

آج میری آنکھیں دروازے پر جمی تھیں۔ مجھے ہر آہٹ اپنی موت کا پروانہ محسوس ہو رہی تھی۔ لوگ بہت دیر سے تماشے کے منتظر تھے۔ تماشا تو کئی سال پہلے لگا تھا لیکن تب کوئی دیکھ نا سکا تھا۔ آج یہ خواہش پوری ہونے چلی تھی۔

تیرے انتظار کی ہر شمع بجھ جانے پر میں نے خود کو وقت کی صلیب سے آزاد کروایا۔ محبت کی کیلیں بہت گہری ہوتیں ہیں یہ اتنی آسانی سے نہیں نکلتیں۔

مجھے محبت نے ڈسا تھا ایک بار نہیں بہت بار۔ آسمان والا خدا کیا جانے زمین کے خدا جب سنگسار کرتے ہیں تو معجزے نہیں ہوا کرتے۔ بس فیصلے سنائے جاتے ہیں۔ کاش مجَھے بھی سنگسار کر دیا جاتا مگر نہیں۔ زرخیر زمین کو فصل کاٹنے کے بعد ہل سے ایک بار چیرا جاتا ہے۔ مجھے بھی چیرا گیا تاکہ کھیتی تیار کی جا سکے۔

میری پہلی اولاد لڑکی تھی۔ ایک اور عورت۔ مگر شکر ہے وہ میری طرح قسمت کی دیوی کے چرنوں میں نا بیٹھی۔ آزاد پیدا ہوئی اور مر گئی۔ مجھے ڈاکٹر نے بتایا کے تم غذائی کمی کا شکار ہو ابھی بچہ پیدا نا کرو پہلے اپنے آپ کو دیکھو مگر شام کے سائے ہمیشہ لمبے ہوتے ہیں۔

کھیتی کا کام نہیں زرخیزی کا حق مانگنا۔ وہ تو کسان کا کام ہے۔ ہاں مگر ایک نوید ضرور سنائی گئی۔ تم منحوس ہو۔ عورت، عورت جن رہی ہے۔ میں سوچتی رہی میں کیسے جن رہی ہوں۔ میری کھیتی آباد کرنے والا میرا خدا مجھے رسوا کر رہا ہے مگر میری رسوائی کس پیڑ کا پھل ہے؟

میں پھر سے آباد ہو گئی۔
میں آباد ہونے پر خوش تو تھی مگر ڈری سہمی رہی۔ آے آسمانوں کے خدا اب کی بار رسوا نہ کیجو۔ تیری باندی کمزور ہے۔ اور تیرے زمینی اوتار بہت ظالم۔ مگر تماشا اُسے بہت پسند ہے۔ وہ بھی تو لطف لیتا ہے۔ میں جب گلیوں میں گھسیٹی گئی تھی تب بھی تو نے میری رسوائی پر جشن منایا تھا۔ اُس دن بھی مینہ کُھل کر برسا تھا۔ تیرے عرش پر جشن ہوا تھا شاید۔ مجھے ایک کلمہ گو سے محبت کی سزا دی گئی۔ میں نجس تھی اور وہ پاک۔ میں بدبو دار تھی اور وہ مشک و عنبر سے آراستہ۔ میں تیری ندی سے پیاس بجھاتی تھی اور وہ زم زم کا مالک۔

جب اُس نے مجھے اپنی محبت بھری آغوش میں بھرا تو میں سیراب ہو گی۔ میری آنکھوں کی پیلاہٹ سرخی میں بدلنے لگی۔ میں مسکرانے لگی کھلکھلانے لگی۔ مگر میں بھول گئی میرا ناپاک وجود کسی پاکیزہ محبت کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔

ایک دن ایک سرخ و سفید عورت میرے آنگن کی غلیظ نالیاں پھلانگتی ہوئی آئی۔ وہ چلا رہی تھی مگر میری بوڑھی ماں کچھ سمجھ نا سکی۔ پھر وہ دوبارہ دہلیز پھلانگتی دوسرے گھر میں پہنچی جہاں میں اپنے وجود کی ناپاکی سمیٹے، اللہ والے پاک لوگوں کے لیے نماز کا فرش تیار کر رہی تھی۔ مجھے وہاں کی خوشبو اب بھانے لگی تھی شاید مجھے اس سے اپنے محبوب کی خوشبو آتی تھی یا آنے والی ان دیکھی خوشیوں کی نوید۔

وہ پاکیزہ عورت تیزی سے مجھ پر جھپٹی۔ میرے بال اُس کی گرفت میں تھے۔ وہ چلا رہی تھی۔ چیخ رہی تھی۔ اپنی پاک زبان سے مجھے ناپاک گالیاں دے رہی تھی۔ ”کتیا، چوڑھی، کمی کمین اب میرے بیٹے پے ڈوریاں ڈال رہی ہے حرامزادی“۔ وہ مجھے گھسیٹتی ہوئی گلی میں لے آئی۔

میری قمیض کا گلا کھنچ کر کندھے تک آگیا تھا مگر اس سے عزت والے پاک لوگوں کو فرق نہیں پڑھتا کیونکہ عزت صرف اُن کی ہے ہماری نہیں۔

باہر عزت والے مرد بھی موجود تھے جن کی عزت کو مجھ سے خدشہ تھا۔ وہ مجھے کھینچنے لگے۔ نوچنے لگے۔ اُن کے ہاتھوں پیروں سے میرے جسم کا کوئی عضو محفوظ نا تھا۔ میں گلی کے سب عزت داروں میں ایک رسوا عورت تھی۔ میرا گناہ محبت تھی۔

رسوائی کے زخم لیے میں گھر لوٹی۔ جہاں میرا جنازہ اُسی رات پڑھا دیا گیا۔ اُسی جنازے کی پہلی فصل میری پہلی مردہ بیٹی کی شکل میں مجھے ملی۔ دوسری فصل اب میرے پیٹ میں پل رہی تھی۔

ایک دن ایک وجود میرے جسم سے جدا ہو کر میری چارپائی پر آ پہنچا۔ مجھے اس کے نا مکمل ہونے کی فکر نہیں تھی مجھے تو بس اس کی چمکتی انکھیں دیکھ رہی تھیں۔ وہ شفاف چمکتی پاکیزہ انکھیں۔ مجھے ان میں سے مشک و عنبر کی خوشبو آ رہی تھی۔ اور کیوں نہ آتی اس بار میں نے بھی اپنی نسل کی پاکیزگی کی قسم کھائی تھی۔ سرخ و سفید رنگ، وہی سیاہ آنکھیں اور ہلکے بھورے رنگ کے بال۔ میرے محبوب تجھے دوبارہ جنم دے کر آج میں نے اپنی رسوائی کا بدلہ تو لے لیا مگر یہ کمی کیسے رہ گئی۔

دائی اماں نے با آواز بلند کہاں ارے ہے تو چاند کا ٹکڑا مگر یہ تو ہیجڑا ہے۔ میں ساکت ہو گئی۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین ناں آیا۔ میں ہمت کرکے اُٹھی تاکہ خود دیکھ سکوں۔ وہ نا مرد تھا نا عورت۔

مگر میں تو ماں تھی۔ ماں کی کوئی جنس نہیں ہوتی نا اولاد کی۔ میں نے اُسے اپنے آنچل میں چھپا لیا۔ وہ رونے لگا۔ میں نے اُسے بھینچ کر اپنی چھاتی سے چمٹالیا۔ میں ماں تھی ناں تو میرا کوئی مذہب تھا نا جنس۔ میرے کان باہر کی آوازوں پر لگے تھے۔ لوگ میری اولاد کی قسمت کے فیصلے کر رہے تھے۔ مگر میں فیصلہ کر چکی تھی۔ میری اولاد میری تھی صرف میری۔

میں نے سب آوازوں کو گھر سے نکال دیا۔ میری رات میرا دن میرے آنسو اور میری ہر خوشی میری اس ننھی خوشی سے منسوب ہو گئی۔ میں دن بھر مزدوری کرتی اور اپنی ننھی خوشی کو اپنے سینے سے لگائے پھرتی۔ اس کی چمکتی سفید رنگت اور چمکیلے بھورے بال میری انکھوں میں اُجالا بھر دیتے۔ اُسکے ننھے ہاتھ مجھے سہارا دیتے۔ میں رات کے کسی پہر جاگ کر جب اُسے سینے سے لگاتی تو میری ساری تھکن اُتر جاتی۔

مگر وقت کا ساون گزر گیا اب خزاں تھی۔ میری آنکھیں دروازے پر لگی تھیں۔

کسی نے مجھے بتایا آج میرا بیٹا آرہا ہے۔ وہ کب سے مجھ سے دور تھا پتا نہیں۔ شاید جب اُسے کسی نے بتایا تیری ماں جھوٹی ہے تو مرد نہیں۔ ہم میں سے ہے۔ وہ اُس رات خوب رویا مجھ سے لپٹ کر۔ وہ بار بار دوہرا رہا تھا۔ ماں تو جھوٹی ہے۔ ماں تو جھوٹی یے۔ وہ روتا رہا۔

اگلے دن وہ میرے گلے لگا اور بولا ماں مجھے جانے دے ورنہ نا تو جی سکے گی نہ میں۔ وہ چلا گیا۔ اُسے نہیں پتا تھا میں بھی اُسکے ساتھ ہی مر گئی تھی۔ مگر اپنا لاشہ اُٹھائے پتا نہیں کتنے برس جیتی رہی۔

آج اُسکے آنے کی خبر آئی تو جیسے میرے بے دم وجود میں جان آگئی۔ میں اپنا میلا آنگن چمکانے لگی۔ میرے بیٹے کے سفید وجود کی چاندنی سے آج میرا آنگن کھیلنے والا تھا۔

دروازہ کُھلا اور کچھ لوگ ایک میلی چارپائی پر کسی سیاہ بدبودار وجود کو رکھ کر چلے گئے۔
یہ میرا بیٹا نہیں ہے۔ سنو یہ میرا چاند نہیں ہے۔ میرے چاند کو گرہن کیسے لگ گیا؟
یہ میرا لال نہیں ہے سنو۔ یہ میرا چاند نہیں ہے۔

میں تو نجس تھی ناپاک تھی۔ میرا بیٹا بھی تو میرے جسم کا ہی حصہ تھا۔ تم تو پاک لوگ ہو۔ تمھیں اپنی ہوس کی آگ بجھاتے ہوے میری اولاد کی ناپاکی نظر نہ آئی؟ وہ بھی تو میری طرح کمی کمین تھا، نجس تھا، نا پاک تھا۔ بولو پاک لوگوں؟ تمھارے گھر پاک، لباس پاک، جسم پاک تو نیت کیوں ناپاک ہے بولو؟
تم نے اُسے زندہ جلا ڈالا۔ میرے بیٹے کو زندہ جلا دیا۔ ارے پاک لوگوں تم تو پاک تھے۔ میرے نجس جسم کے ٹکڑے کو تو اپنی ہوس کی آگ سے بخش دیتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).