تعلیم کا پیاسا بلوچستان


سرزمین بلوچستان کا شماردنیا عالم کے اُن گلزمینوں میں ہوتاہے جہاں بیش بہا قدرتی معدنیات اور سائل و وسائل پائے جاتے ہیں اللہ تبارک و تعالی نے اس پر رونق پرسکون اور جنت نما زمین پر ہر وہ مہربانیاں عطا کی ہیں جس سے یہاں بسنے والے انسان (بلوچ) صدیوں تک استفادہ کرتے ہوئے خوشحال زندگی بسر کر سکتے ہیں، سر سبز و شاداب پہاڑیں، ساحل، گل و گلزار صحرا، دلفریب سمندر، زیبائشی ریگستانیں اور اپنے قیمتی جغرافیائی محل و وقوع کے ساتھ زندگی کی ہر جمالیت و رعنائیت یہاں پائی جاتی ہیں، اگر کسی نے سچے دل سے بلوچستان کو دیکھا ہے تو یقیناً ان پہاڑوں صحراؤں اور ریگستانوں میں چھپی اس کی دلفریبی زیبائش اور حسن و جمالیت کو جانچا اور پرکھا ہوگا۔ مہر و محبت پر اپنی جانیں قربان کرنے اور عذاب برداشت کرنے والے فرہاد اور شرین، شے مرید حانی سے لیکر میدانِ جنگ میں عرب، مغل، نپولین اور انگریز سامراج جیسوں کو شکست پاش کرنے والے عظیم جنگجوؤں کی سرزمین بلوچستان اب نا بلکہ بلوچوں اور پاکستان کیلئے اہمیت کا حامل ہے بلکہ عالمی طاقتوں کی نظریں بھی اس سرزمین پر ہے۔

نو ہزار طویل تاریخ رکھتی ہوئی بلوچستان موجودہ وقت میں پاکستان کا 44 فیصد حصہ ہے جبکہ خزانوں سے کھچا کھچ بھری اس مالا مال گل زمین کی قدرتی معدنیات (گیس سونا چاندی سنگ مرمر کرومائیٹ وغیرہ وغیرہ) سے پورا پاکستان استفادہ کر رہا ہے جبکہ اس زمین کے اپنے باسی یعنی بلوچستان کے لوگ اچھی صحت سے محروم گیس اور دیگر معدنیات سےمحروم ہیں۔ جبکہ میدانِ تعلیم میں بدحالی نیز زندگی کے ہر شعبے میں پسماندگی کا سامنا کر رہے ہیں ایک کروڑ اکتیس لاکھ  ساٹھ ہزار پر محیط یہ بہت چھوٹی آبادی والے بلوچستان میں چونتیس لاکھ طلباء کے اندر تیئس لاکھ طلباء اسکولوں سے محروم اور زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے کے بجائے کسی ویرانے میں چرواہے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جبکہ سابقہ سینیٹر اور موجودہ ایم پی اے اور پی این پی کے مرکزی رہنماء ثناء بلوچ کا کہنا ہے کہ 25 لاکھ بلوچ طلباء تعلیم سے دور ہیں۔ 22 اگست 2018 کو اپنے ایک ٹوئٹ میں ثناء بلوچ کا کہنا تھا “کہ بلوچستان میں 25 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں – ناقص منصوبہ بندی کے باعث تمام شعبے تباہی سے دو چار ہیں – وسائل سے مالا مال خطہ بھوک، پیاس، بے روزگاری، عدم تعلیم اور سماجی مسائل میں جکڑا ہوا ہے۔ بلوچستان کو اس دلدل سے نکالنے کیلے روایتی نہیں بلکہ انقلابی فیصلوں کی ضرورت ہے۔”

شعبہ تعلیم کے میدان میں بلوچستان کا پاکستان کے دوسرے صوبوں سے موازانہ کرتے ہوئے تقابلی جائزہ لیا جائیں تو افسوس اور بڑی دکھ کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ اس خزانوں سے سیراب زمین کے واسیوں کو دوسرے شعبوں سمیت علم تعلیم کے میدان میں بھی پیچھے رکھا گیا ہے، صوبے بھر میں 34 لاکھ طلباء کیلئے مختص کئے گئے اساتذہ کی تعداد محض 56 ہزار ہے جبکہ ان میں سے ہزاروں اساتذہ ایسے ہیں جو بنا پڑھائے تنخواہ وصول کرتے ہیں جن کو پوچھنے والا کوئی نہیں کیونکہ جو اس مقدس پوسٹ پر لگائے جاتے ہیں وہ خود اس مقام کی حیثیت کو نہیں سمجھتے جن کی پوسٹنگ کچھ مقامی مدبریں اور سرکاری افسران کی سفارشات پر ہوتا ہے، الف اعلان کے ایک رپورٹ کے مطابق اسکول میں داخلہ لینے کے بعد تعلیم کو ادھورا چھوڑنے کی شرح کافی خطرناک اور افسوسناک ہے جیسا کہ پرائمری کی سطح پر آٹھ لاکھ پینسٹھ ہزار تین سو سینتیس (865337) بچے داخلہ لیتے ہیں جبکہ ان میں سے مڈل پاس کئے ہوئے طلباء کی تعداد ایک لاکھ اکانوے ہزار تین سو(191300) رہ جاتا ہے جبکہ اس دورانیہ میں چھ لاکھ چھتر ہزار تینتیس بچے میٹرک تک پہنچنے سے پہلے تعلیم کو خیرآباد کہتے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ طلباء تعلیم کا شوق نہیں رکھتے ہیں یا زیورِ تعلیم سے آراستہ نہیں ہونا چاہتے بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف بھوک افلاس اور غربت ہے تو دوسری طرف سرکاری بدحال عمارات میں اساتذہ کی غیر موجودگی جس کی وجہ سے طلباء کے دل سے تعلیم کا شوق ٹوٹ جاتا ہے جبکہ غیر حاضر اساتذہ برسوں تک اسکول کی طرف قدم نہیں رکھتے علاقائی میر و مدبریں اور اعلی سرکاری عہداران سے نزدیکی کے سبب کوئی ان سے سوال تک نہیں پوچھ سکتا اپنی مرضی و منشا سے دل لگنے پر آتے ہیں اور ایک دن چکر لگا کر پھر غائب ہو جاتے ہیں جنہیں تنخواہ بروقت بنا کسی مشکل کے موصول ہو جاتی ہے۔ دوسرے علاقوں کی طرح اگر یہاں بھی غیر حاضر اساتذہ کی تنخواہیں فوری طور پر بند کر دی جائیں تو یہ عالم نہ ہوتا۔

بلوچستان میں پچھتر فیصد اسکول ایسے ہیں جو رہائش کیلئے قابل نہیں دنیا میں سب سے زیادہ صفائی کا خیال اسکولوں میں رکھا جاتا ہے اس کیلئے کئی افراد کو مختص کیا جاتا ہے تاکہ خراب اسکولوں اور گندگی کی وجہ سے بچوں کی صحت پر برے اثرات مرتب نہ ہو لیکن یہاں عالم یہ ہے کہ اسکول گائے بھیڑ اور بکریوں کی رہائش گاہ بن گئے ہیں۔ ان اسکولوں میں بچے و بچیاں خاک زیور تعلیم سے آراستہ ہونگے، جبکہ پورے بلوچستان میں چھیتر فیصد اسکول ایک عمارت پر مختص ہیں۔
کیا ان عداد و شمار کو جانے کے بعد آپ کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ بلوچستان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے خاص کر تعلیم کے میدان میں، بلوچستان میں جب بھی کوئی نئی حکومت آئی ہے اُس کا سب سے پہلا دعوی یہی رہا ہے کہ تعلیم ہمارے پہلے ترجیحات میں ہے جبکہ یہ سلسلہ ایک عرصے سے بدستور جاری و ساری ہے لیکن آجتک دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ میدان تعلیم میں بھی بلوچوں کو نظرانداز کیا گیا ہے وزراء، اعلی عہدیداران، وڈیروں اور سرداروں کے اپنے بچے تو یورپ اور پاکستان کے اعلی تعلیمی اداروں میں زیور علم سے آراستہ ہو رہے ہیں جبکہ عام بلوچ کا بچہ اور اس سرزمین و گلزمین کے اصل وارث یا تو چرواہا ہے یاکہ کسی جگہ پر مزدوری کرتے ہوئے دن کا کھانا تلاش کرنے تک اکتفا کیا ہوا ہے کیا یہ سراسر ناانصافی نہیں ہے کہ ایک جانب یہاں سے گیس تیل اور دوسرے معدنیات بھرپور طریقے سے نکالتے ہوئے دوسرے صوبوں کو آباد کیا جا رہا ہے جبکہ یہاں کے اپنے مقامی باشندے سرزمین کے اصل وارث تعلیم جیسے بنیادی ضروریات سے محروم ہیں،
اس دورِ جدید میں بلوچستان کے دوسرے پسماندہ علاقوں کو چھوڑ کر کوئٹہ جیسے بڑے اور بلوچ نوجوانوں کیلئے علم تعلیم کے پیاس کو بجھانے کیلئے واحد شہر میں میڈیکل کے طلبہ و طالبات کو پڑھنے اور انٹری ٹیسٹ کی تیاری کیلئے ایک لائبریری تک میسر نہیں۔ یقین کیجئے بلوچ نوجوان سی پیک میں سے آدہ حصہ نہیں چاہتے سینڈک اور ریکوڈیک میں اپنا حق نہیں مانگتے گیس اور دوسرے معدنیات میں اپنی حصہ داری نہیں چاہتے ہیں یہ آپ اپنے پاس رکھیں جو آپ پچھلے ستر سال سے رکھے ہوئے ہیں ہم اگر پچھلے نو ہزار سال سے ان پہاڑوں میں بسیرا کیے ہوئے زندگی گزارتے آ رہے ہیں مزید زندگی گزار سکتے ہیں افلاس و بھوک ہمارے لئے بڑی بات نہیں نو ہزار سال تک ہم بلوچستان کے ان سر سبز و شاداب پہاڑوں سے کچھ یہاں وہاں نکال کر کھاتے ہوئے زندہ رہے ہیں اور مزید بھی اسی طرح گُزارا کر سکتے ہیں ہمیں امن و امان بھی نہیں چاہئے ہم پچھلے تین سو سالوں سے جنگ میں زندہ رہتے آ رہے ہیں عربوں سے لیکر مغل سلطنتوں تک ایرانیوں کی بربریت سے لیکر انگریزوں کی قہر تک ہمارے لیے امن و امان کبھی قائم نہیں رہا ہے ہمارے لیے جنگی حالات ہمیشہ سے رہے ہیں مزید بھی اسی طرح جنگی حالات میں زندگی گزارتے رہیں گے اگر بلوچ نوجوان کسی چیز کے پیاسے ہیں تو وہ تعلیم ہے، کوئٹہ بروری روڈ میں قائم مہینے کا ہزار ہزار والے لائبریریوں یاکہ جناح روڈ پر واقع قائداعظم لائبریری کے اندر آکر دیکھ لیں سوکھے زمین پر بیٹھے بلوچ طلباء کس چیز کے پیاسے ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں۔
اس طرح کے ناروا سلوک سے لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے ایک طرف یہاں سے معدنیات لے جایا جاتا ہے اور پنجاب سمیت دوسرے صوبوں کے لوگ اس سے استفادہ کرتے ہوئے خوشحالی سے زندگی بسر کرتے ہیں جبکہ معدنیات کے اصل وارث یعنی بلوچ اسی معدنیات کے فائدہ سے محروم رہتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں غربت کا دور دورا ہے گیس کی بھی حالت یہی ہے جو ساٹھ سالوں سے یہاں نکالا جا رہا ہے اور پورے بلوچستان کو چھوڑ کر وہاں کے مقامی باشندے جہاں سے گیس دریافت ہوتی ہے اس سے محروم ہیں ان سب کے باوجود میدان تعلیم جو سب سے زیادہ ضروری شے ہے ان حالات میں جہاں دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہو چکی ہے وہاں بلوچستان کے لوگ تعلیم سے بھی محروم رکھے گئے ہیں۔
چونکہ آجکل تبدیلی کا دور دورا ہے تو یہاں مجھے نیلسن منڈیلا کا یہ قول یاد آ گیا کہ تعلیم دنیا کی وہ سب زیادہ مضبوط ہتھیار ہے جس سے آپ دنیا کو تبدیل کر سکتے ہیں ہمیں سمجھنا چاہیے کہ تعلیم سے ہی مستحکم معاشرے کا قیام ممکن ہوتا ہے جہاں لوگ علمی میدان سے دور رہیں گے وہاں تخریب کاری اور جہالت کا دور شروع ہوگا اس لیے موجودہ وقت میں ایک بلوچ طلباء کی حیثیت سے میرا خیال ہے کہ بلوچستان تعلیم کیلئے پیاسا ہے اس لیے صوبائی حکومت نعرے بازی سے نکل کر عملی طور پر تعلیم کو فروغ دینے کیلئے کچھ بہتر تدبیریں سامنے لائیں اور وفاقی حکومت بھی اس تبدیلی کے دور میں بلوچستان کو نظر انداز کرنے کے بجائے یہاں توجہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).