دو بیویاں حانہ اور مانہ


قیامت کے دن انسان سے کہا جائیگا کہ”کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کسی کو اُس میں نصیحت حاصل کرنی ہوتی کرلیتا اور تمہارے پاس (اللہ تعالی کے عذاب سے) ڈرانے والا بھی آیا تھا،، سورۃ الفاطر 37
ڈرانے والوں اور خبردار کرنے والوں سے مراد انبیاء کرام، اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ کتابیں اور اس اُمت کے لئے سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پرنازل کی گئ کتاب قرآن کریم ہے، اسی طرح ڈرانے والوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، علماءِ کرام ، عمر کے مختلف مراحل بیماری یا مصیبت، اور آس پاس کے لوگوں کا دنیا سے کوچ کرجانا بھی شامل ہے، کہ یہ سب کچھ انسان کو موت اور آخرت یاد دلاتا ہے، اس کے علاوہ بعض حضرات نے(نذیر) ڈرانے والے سے سفید بال بھی مراد لئے ہیں ۔
جیسے موت حدیث کے مطابق مومن کے لئے راحت ہے، لیکن اس کے باوجود طبعی طور پر وہ نہیں چاہتا کہ اُسے موت آجائے بالکل اسی طرح سفید بال اگرچہ نورِ مسلم اور باعثِ عزت و وقار ہے لکن کوئی نہیں چاہتا کہ اُس کے بال سفید ہوجائے ، ہم ابھی تقریباً 38 کے پیٹھے میں ہی ہونگے لیکن
سفید بال کی شکل میں ڈرانے والا ہمارےہاں بھی حاضر ہوچکا ہے ، وہ صرف مہمان کے طور پر نہیں آیا بلکہ مستقل رہے گا اور روز بروز اُس کے احباب بھی بڑھ رہے ہیں، ویسے پہلے ذکر کردہ اتنے سارے ڈرانے والے ہی ہمارے لئےکافی تھے ، ہم اتنے شریر نہیں ہیں ، لیکن یہ اللہ جلّ شانہ کا نظام ہے کہ وہ بندے پر ہر اعتبار سے اپنی حجت تمام کردیتا ہے تاکہ اُس کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے، آج کل چونکہ عمر میں وہ برکت نہیں رہی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی اسلئے یہ ڈرانے والا اب اپنے وقت سے کافی پہلے حاضر ہو جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں سفید بال کی شکل میں ڈرانے والا بعض حضرات کی زندگی میں بڑا انقلاب لاتاہے ، اللہ کرے ہماری زندگی میں بھی کوئی خوشگوار انقلاب آجائے
جبکہ بعض حضرات (الآن کما کان) کے مصداق ہوتے ہیں، یعنی اب بھی وہی حال جو پہلےتھا، احادیث میں سفید بالوں کو اکھیڑنے اور سیاہ کرنے سے منع کیا گیا ہےاور اُن کو مسلمان کا نور قرار دیا گیا ہے،
لیکن سیاہ رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ سے بالوں کو رنگنے کی شرعاً اجازت بھی ہے ، چنانچہ سیدنا جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو لایا گیا، ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :غَیِّرُوا ھذا بِشَیئ و اجتنبوا السواد” اس کا رنگ کسی چیزسے بدلو اور کالے رنگ سے بچو۔ (صحیح مسلم)
اسلئے ایک آپشن تو یہ ہے کہ بالکل کالے رنگ کے علاوہ سیاہ مائل یا کسی اور رنگ کا استعمال کیا جائے،
سیاہ خضاب کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، شوافع عام حالات میں اسے حرام قرار دیتے ہیں، مالکیہ، حنابلہ اور احناف اسے حرام تو نہیں البتہ مکروہ کہتے ہیں،
لیکن کراہت سے مراد کراہتِ تحریمی ہے جو بہرحال حرام ہی کا ایک درجہ ہے، جبکہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد قاضی ابو یوسف کی طرف جواز کاقول منسوب ہے،اُن کی طرف یہ قول بھی منسوب ہے کہ جیسے شوہر کو اچھا لگتا ہے کہ اُسکی بیوی اُس کے لئے تزئین و آرائش کرے اسی طرح عورتیں بھی چاہتی ہیں کہ اُن کے شوہر ان کے لئے آراستہ ہوں، لیکن عام فقہاء احناف نےاس صورت میں بھی کالا خضاب مکروہ قرار دیاہے اوراسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے،
بعض علماء کے ہاں اگر بیوی کم عمر ہو تو ایسی صورت میں اُس کی دل جوئی کی خاطر سیاہ خضاب استعمال کرنے کی اجازت ہے ،( الابلا برگردنِ ملّا) سوچا کیوں نہ ہم بھی یہ دوسرا آپشن اختیار کرکے اپنے سے نو دس سال چھوٹی کو تلاش کرے، ایک تو تازہ دم جورو مل جائیگی، دوسرا سیاہ خضاب کے استعمال کی گنجائش نکل آجائیگی، لیکن اس میں ایک تو مشکل یہ ہے کہ پہلے جورو کے ہوتے ہوئے دوسری کوئی نہیں دیگا، خان صاحب کی طرح پہلی کو نہ تو چلتا کر سکتے ہیں اور نہ ہی اُن کی طرح ٹمپریری شادی ہم کریں گے، ہماری دوسری شادی کے خیال میں دوسری رکاوٹ چند دن پہلے عربی اخبار میں حانہ اور مانہ کے قصے کا نظر سے گزرنا تھا، اُ س کے پڑھنے کے بعد ہماری سوچ یکسر تبدیل ہوگئی، آپ بھی یہ قصہ پڑھ کر شاید دوسری شادی کا خیال ذہن سے نکال دیں،
ایک آدمی کی دو بیویاں تھی، بیس سال کی لگ بھگ چھوٹی کانام حانہ تھا جبکہ بڑی (مانہ) کی عمر پچاس سے زیادہ تھی، ڈرانے والا(سفید بال)شوہر کی طرح مانہ کے پاس بھی پہنچ چکا تھا، شوہر جب حانہ کے کمرے میں جاتا تو وہ یہ کِہکر سفید بال اکھیڑتی کہ مجھے آپ کے بالوں میں سفیدی بالکل اچھی نہیں لگتی آپکی عمر ہی کیا ہے، ابھی تو آپ یک دم جوان ہیں،اور جب مانہ کے پاس جاتا تو وہ یہ کِہکر سیاہ بال اکھیڑتی کہ آپ بڑی عمر کے بزرگ اورجلیل القدر شوہر ہیں، اس پیرانہ سالی میں آنجناب کیساتھ یہ بچپنہ اچھا نہیں لگتا،، یہ سلسلہ چند دن چلتا رہا، ایک دن جب شوہر نامدار آئینہ کے سامنے کھڑے ہوئے تو دیکھا کہ داڑھی تو آدھے سے زیادہ غائب ہے، (اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت) اس لئے بڑے دردسے کہنے لگا “بَینَ حانہ وَ مانہ ضَاعَت لُحانا،،
یعنی حانہ اور مانہ کے بیچ رہ کر ہم نے اپنی داڑھیاں ہی گنوادیں. فی الحال یہ سوچ کر دوسری شادی کاخیال دل سے نکال دیا ہے کہ کہیں ہماری داڑھی بھی دو بیویوں کی شرارتوں کی نذر نہ ہوجائے، ویسے ہم نے یہ واقعہ پڑھنے سے پہلے دوسری شادی کے حوالے سے اپنی موجودہ بیگم کی رائے معلوم کی تھی، آن محترمہ کہنے لگی صرف دل میں بسانے کے لئے یہ خیال بہت موزوں ہے، اس سے دل تو جوان رہتا ہی ہے، کبھی کبھی تذکرہ کرنے سے منہ کا ذائقہ بھی میٹھا ہوجاتا ہے، باقی آپ خود سمجھ دار ہیں،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).