عقل بڑی ہے کہ بھینس؟


میں کلاس میں پڑھا رہا تھا کہ  پیچھے دو شرارتی بچوں میں سے ایک نے دوسرے کو ایک معصومانہ سوال فارورڈ کیا کہ “عقل بڑی ہے کہ بھینس” تو جیسے میں بھی خلا میں اٹک گیا جو ہم جیسے رٹو طوطوں کی عادت ہے، اور فلسفیانہ طرز پر اس سوال پر غور کرنے لگا اور بے اختیار وہی سوال اسی بچے کو ری فاروڑ کیا تو بچہ جمہورہ نے ہنس کے یہ کہا “سر یہ تو بچوں والی سوال ہے” مگر نادان کو یہ پتہ ہی نہ تھا بچوں والی ہے اور ہم تو بچے نہیں جو بچوں والی بات سمجھتے۔ پچھلے ستر سال سے جو بھی ہوتا رہا خاک سمجھ میں نہ آیا۔
بل بجلی کا ہوتا ہے پر اس پہ نیلم جہلم چارج، پی ٹی وی، اقراء مہم اور کبھی قرض اتارو ملک سنوارو کا بھی کریم لگا ہوتا ہے۔ مطلب ایک تیر سے دو نہیں تین نہیں بلکہ چار چار پانچ پانچ شکار ۔یہ الگ بات کہ 90 فیصد لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ پی ٹی وی ان کے پیسوں پہ چلتی ہے اور رہ کے 2018 میں دکھاتی ہے قبل مسیح کے دور کے پروگرام اور ہم جیسے لوگ جو رہتے ہیں جن علاقوں سے نیشنل گرڈ سے کنیکٹ ہی نہیں ہے تو نیلم جہیلم کی تو بات ہی ختم۔

آج کل کا “تماشہ مہمند اور بھاشا ڈیم فنڈ” دیکھئے اب عقل حیران کہ وزیر پانی بجلی کون اور چیف جسٹس کون؟ 90 لاکھ کیسسز کو گھٹڑیوں میں باندھ کر پتہ نہیں کدھر لاپتہ کیا گیا ہے اور چیف جسٹس صاحب قریہ قریہ شہر شہر پھررہے ہیں ڈیم فنڈ کیلئے۔ واہ رے چیف واہ۔ آپ ہی کے قبیل کے لوگوں نے الٹی گنگا بہنا جیسے محاورہ بنائے ہونگے مگر چیف جسٹس صاحب کی یہ منطق سمجھ سے بالاتر۔ دیس کی پولیس چوری روکنے کے بجائے خود چور، جس کا واضح ثبوت اِس سال کا ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ ہے جس میں پولیس کو سب سے زیادہ کرپٹ ادارہ قرار دیا گیا ہے۔

16 16 جماعتوں، تاریخ یونان سے لیکر تاریخ ہندوستان تک، منٹو،شہاب، اقبال، فیض سبھی کی لکھی ہوئی کتابیں مع قرآن شریف و صحین شریف کی تمام حفظ کرنے کے بعد وقت کے افلاطون خوانچہ فروشی، ماہی گیری، ہل جوتتے اور جوتے سیتے نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف کسی افسر شاہی کو راتوں رات خواب میں ایک فہرست الہام ہوتی ہے اور وقت رواں کے سبھی سند یافتہ نالائق، معاشر کیلئے سوئے جان بنے ہوئے نکمے و سڑک چھاپ دوسرے دن فل ٹھاٹ بھاٹ میں مختلف محمکہ جات میں اپنے فرائض منصفی نالائقی سے انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ تو ذہن اٹک جاتا ہے کہ دیوار چین جیسی چاردیواری میں بند یونیورسٹیوں، عقوبت خانے نما اسکولوں کی کیا ضرورت جبکہ سلیکشن کسی افسر شاہی کو الہام ہونے والی فہرست پہ ہی ہونی ہے؟

یہی نہیں اربوں ہڑپ کرنے والوں کو جیل کی کوٹھڑی دو دن کیلئے بھی نصیب نہیں ہوتی اور دس روپے چرانے والے کو واردات کے بعد باہر کی زندگی۔ تو عقل کس زاویہ کس اصول کے تحت یہ لاثانی و بے معنی قانون کو سمجھے حالانکہ کہنے کو ہر ادارہ موجود ہے، وہ الگ بات ہے کہ عملی طور پہ دکھتا نہیں۔

ویسے رونا میں اپنی کم عقلی و کند ذہنی پہ روتا ہوں کہ کوئی تو ہو جو بس یہ سمجھا دے کہ کونسے ملک میں بجلی و گیس چوری روکنا حکومتی اداروں کے نہیں بلکہ مسجد کے مولوی سے ہوتی ہو تو کیوں نا ایک آدھ مولانا کو وزیر اعظم ہی بنادیا جائے ویسے بھی ملک فتوؤں اور مولوی پریشر سے چل رہا ہے۔ کل تو اتنا بھی سنا کہ کالا جادو و روحانی اثرات بھی ہمارے ملکی سیاست میں اہم جز ہوتے جارہے ہیں تو مولوی کا فائدہ ہوگا کہ وہ تمام سامانوں سے لیس ہیں، یہی سوچ سوچ کے سوچ ہی گم ہوگئی ہے۔

71 سال کی بے نظیر تاريخ دیکھئے ہر سمت یہی نظر آئے گا جس کا جو، جو کام ہے وہ، وہ کرتے نہیں اور جو جس کا کام نہیں وہ وہ کرتا نظر آتا ہے تبھی سوچ کر حیران ہوں عقل بڑی کہ بھینس تو بالاخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بھینس بڑی ہے مگر معدہ 71 سالوں میں انسانوں کا ہی بڑا رہا ہے جہاں ہم اس بے زبان کو مات دیتے ہیں اور کیوں نا دیں آخر اشرف المخلوقات ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).