کراچی کا سیاسی وارث کون؟ ہے کوئی؟


منصوبہ بندی کے فقدان کے ساتھ جس طرح یہ سب کیا جارہا ہے یقینا کراچی کے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اور یہ بے چینی جرائم میں اضافہ میں سبب بن کر مستقبل میں سامنے آئے گی۔ پی پی کی حکومت پچھلے دس سالوں سے سندھ پر حکمرانی کررہی ہے لیکن مجال ہے کہ کراچی کے حوالے سے بھول کر ہی کچھ سوچا گیا ہے۔ 2008 سے اب تک سندھ حکومت کراچی میں کوئی نئی ہاؤسنگ اسکیمیں نہیں بنا سکی۔ سو یہی ہونا تھا جو ہوا کچی آبادیوں اور بے ہنگم تجاوزات کا دیو کراچی کو نگلتا رہا شہر بد صورت ہوتا گیا اور ہوتا ہی گیا۔

کبھی یہ شہر بھی خوبصورت ہوا کرتا تھا۔ پھر اس شہر میں بستیاں بسانے اور آباد کاری کے نام پر جو کچھ ہوا وہ زمینوں کی لوٹ مار سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ اس صورتحال کے ساتھ قرینے کے اس شہر کو بری طرح بدنظمی کا شکار کردیا گیا۔ مختلف اداروں میں بٹے ہوئے اس بدقسمت شہر میں منصوبہ بندی نام کی کوئی چیز آپ کو نظر نہیں آئے گی۔

بجلی اور گیس کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کس حد تک بلند عمارتیں بننی چاہییں، کتنی بستیاں بسنی چاہیں؟ اس کی کوئی منصوبہ بندی کہیں دکھائی نہیں دے گی۔ ٹریفک کے مسائل اپنی جگہ کسی آدم خور دیو کی طرح کراچی میں بسنے والوں کو کھا رہے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اس شہر نے کیا نہیں دیکھا۔ لسانی فسادات سے لے کر مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت، بھتے کی پرچیاں، بھتا نہ دینے پر ملنے والی لاشیں، ہڑتالوں کے باعث کاروبار کا پہیہ جام کرنے کی سازشیں، ٹارگٹ کلنگ سے لال ہوتی سڑکیں، اغواء برائے تاوان کام کرتے گروہ غرض اس شہر کے باسیوں پر ہر قیامت گزر چکی ہے۔

سندھ حکومت کی طرف سے وفاق سے اپنے حصہ کا مطالبہ تو کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہا ہے لیکن بجٹ منظوری کے بعد بھی پچھلے دس سالوں سے سندھ حکومت نے کراچی کی ترقی سے لاپرواہی برتی، اور اگر چند سکے خرچ کر بھی دیے جائیں تو اس میں کام سے زیادہ تشہیری عوامل کر مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ کراچی میں بسنے والے مہاجرین کی ہمیشہ حق تلفی کی گئی جس کے نتیجہ میں لسانیت کی بناء پر قائم کی گئی جماعت ایم کیو ایم کو کراچی کے عوام کی ہمدرد ی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔

مہاجروں کی پہچان بنے والا کراچی وفاق کے بجٹ کا 67 فیصد حصہ دیتا ہے یہ وہی کراچی ہے جو کہ سونے کی کان کی طرح سندھ کے بجٹ کا 97 فیصد حصہ پورا کرتا ہے۔ یعنی صوبہ سندھ کراچی کی آمدنی پر انحصار کرتا ہے۔ اس سب کے باوجود یہ شہر مسائل کا شکار اور تباہی سے دوچار ہے۔ کراچی سے محبت کا ڈھونگ رچاتی سیاسی جماعتوں نے کراچی کوکھنڈر بنانے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی۔

کراچی میں پیدا گیری کے مواقعے کھل جائے تو ہر جماعت بہتی نئیا میں ہاتھ دھونے آجاتی ہے کہ ہمارا حق پہلے ہے کیوں کہ ہم ہی کراچی کے اصل حق دار ٹھیرے لیکن جب مسائل کے حل کی بات ہوتو کراچی اندھیر نگری چوپٹ راج کی منہ بولتی تصویر نظر آتا ہے۔

گلی محلے کے مسائل ہوں یا کسی بستی اور گاؤں کے معاملات، کوئی قبیلہ ہو یا کمیونٹی، انسانی فطرت اور ہماری سماجی اور اجتماعی زندگی کا تقاضا ہے کہ ہم کچھ لوگوں کو چُن کر انھیں اپنے فیصلوں کا اختیار دے دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں متعلقہ انسانی گروہ میں سب سے زیادہ عقل مند، دیانت دار، بالغ نظر، جرأت مند اور قیادت کے لیے دیگر خصوصیات کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ان سے سنجیدگی اور بردبادی کی توقع کی جاتی ہے۔ انھیں رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ قبائلی معاشرے سے جدید جمہوریت تک دنیا کے ہر خطے میں یہی روایت رہی ہے۔ لیکن افسوس ہمارے یہاں ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آتی۔

سندھ پر حکومت کرتی پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صاحب کی تقریریں اس بات کا کو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ سند اور کراچی کے عوام کے لیے مخلص ہیں، لیکن فقط تقریروں سے نظام درست نہیں کیے جاسکتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی تقریریں آج بھی لوگوں کے کانوں میں گونجتی ہیں، پرویز مشرف جب تقریر کرتے تھے تو ان سے بہتر لیڈر کوئی معلوم ہی نہیں

ہوتا تھا اور اب عمران خان صاحب کی خوب صورت تقریر نے عوام کو حالات بہتر ہونے کی نوید دی ہے۔ لیکن کیا کراچی کے عوام جو یہ سمجھتے تھے کہ سب کچھ ٹھیک ہونے جا رہا ہے کیا ٹھیک ہوگیا؟

اس وقت کراچی کے عوام سوالیہ نظروں سے مرکزی حکومت کو دیکھ رہی ہے کیونکہ صوبائی حکومت سے تو کسی خیر کی امید نہیں۔ کراچی کے مسائل کا بہت بڑا حل یہاں پر کسی ایک مستحکم سیاسی جماعت کاہونا ہے جو اس شہر سے مخلص ہو کر کام کرسکے۔ کیا پی ٹی آئی کی حکومت اپنے مقررہ وقت میں کراچی میں بلدیاتی انتخابات کروانے میں کامیاب ہوسکے گی جبکہ موجودہ حکومت پہلے ہی بہت سے مسائل سے دوچار ہے۔ اور ان حالت میں جبکہ ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والے مئیر کراچی کے حوالے سے شہر کے مکینوں کو بہت سے تحفظات ہیں ایسے حالات میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں کس پارٹی کا مئیر کراچی کے عوام کے دلوں میں جگہ بنا سکے گا ان سوالوں کا جواب آنے والا وقت ہی د ے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2