انتقام کی شکل اختیار کرتا احتساب


احتساب قانون پہلے دن سے ہی متنازعہ رہاہے۔ 1997 میں جب میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کو نشانے پر رکھنے کے لئے احتساب بیورو قائم کیا تو اس وقت انہوں نے اپنے معتقد خاص بدنام زمانہ سیف الرحمان کو اس کا چیئرمین بنا کے پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور ان کے خاوند آصف علی زرداری صاحب کو کرپشن کے جھوٹے کیسز میں پھنسانے سیاسی طور سیاست سے باہر کرنے کی مذموم کوشش کی۔ اس دوران جسٹس قیوم اور میاں شہباز شریف اور سیف الرحمان کی آصف زرداری اور بینظیر بھٹو شہید کو ہر حالت میں سزائیں دینے کی آڈیو ٹیپ بھی منظر عام پہ آئیں جس کے بعد احتساب بیورو اس وقت سے ہی اپنی افادیت کھو بیٹھا۔

جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر غاصبانہ قبضے کے بعد 1999 میں احتساب بیورو کو قومی احتساب بیورو کا نام دے کر اس میں اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق ترامیم کرائی گئیں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح احتساب کے نام پہ انتقام کا بدترین ڈرامہ رچایا گیا اور قومی احتساب بیورو نے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ اور مسلم لیگ ق کے قیام میں کیسا مکروہ کردار ادا کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے نیب کو استعمال کرکے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بدترین انتقامی کارروائیاں نہ صرف جاری رکھیں بلکہ انہیں جدت عطا کی۔

جنرل مشرف کے بعد 2008 میں پیپلز پارٹی اور پھر 2013 میں مسلم لیگ ن اقتدار میں آئیں تو نیب کا سیاسی مقاصد کے لئے اور سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال بہت کم ہو گیا، اس دوران تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب نیب کے ادارے اور اس کے سربراہ پہلے قمر الزماں چودھری اور پھر جسٹس جاوید اقبال کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کیے رہے۔ عمران خان صاحب نیب چیئرمین اور نیب پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے سہولت کار تک کا الزام لگاتے رہے اور ان کے خلاف دھرنوں اور مظاہروں کی قیادت کرتے رہے۔

اسی دوران ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ بھی چیئرمین نیب اور نیب کے ادارے کی ناقص کارکردگی اور نا اہلی کو ہدف تنقید بناتی رہی۔ بہت سے مراحل ایسے بھی آئے کہ چیئرمین نیب بذاتِ خود سپریم کورٹ کے کٹہرے میں ملزموں کی طرح معزز ججز کے تند و تیز سوالات کے جوابات دیتے اور ججز کی سخت سرزنش کا نشانہ بنتے نظر آتے تھے۔ 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان میں کرپشن کے خلاف سخت ترین مؤقف رکھنے والے عمران خان صاحب کو قومی اسیمبلی میں معمولی سی اکثریت دلواکر اقتدار میں لایا گیا۔

عمران خان صاحب نے توقعات کے عین مطابق اپنے پہلے ہی خطاب میں ملک سے کرپشن اور کرپٹ عناصر کے خلاف سخت ترین اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے صرف اپوزیشن قیادت کو ہی کرپشن اور لوٹ مار کا ذمیدار ٹھہرایا۔ وہ جب اپوزیشن رہنماؤں خاص طور پر میاں برادران، آصف علی زرداری، اور دیگر لوگوں پر کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے انتہائی جارحانہ اور رقیق قسم کے الزامات لگا رہے تھے تو یہ بالکل ہی فراموش کر بیٹھے تھے کہ کرپشن میں سر سے پیر تک ڈوبے نجانے کتنے پاک صاف فرشتے ان کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔

مگر ان کی وسیع نظر کی داد دینی پڑے گی کہ انہیں میاں برداران اور زرداری صاحب ہی کرپٹ نظر آئے۔ عمران خان صاحب کو اقتدار میں آئے چار ماہ گزر چکے ہیں اور ان چار ماہ میں کوئی چار سو بار وہ اور ان کے اکثر وزراء اپوزیشن ڈاکو، پچاس لوگوں کو جیل میں ڈالیں گے، نواز شریف، شہباز شریف، زرداری فلاں فلاں جیلوں میں باقی کی زندگی گذاریں گے، کے علاؤہ کوئی اور بات، کوئی اور پروگرام دینے سے قاصر رہے۔ خان صاحب کی حکومت نے اپنی کارگردگی کا معیار صرف اور صرف اپنے مخالفین کے خلاف احتساب کو بنا لیا ہے۔

اس احتساب سے اب انتقام کی بو آنے لگی ہے۔ احتساب اب صرف احتساب نظر نہیں آ رہا، احتساب اب انتقام کے رنگ میں رنگ تا نظر آ رہا ہے۔ جب سے عمران خان صاحب اور ان کے ساتھیوں نے اپوزیشن کو احتساب کے نام پر دھمکانا ہراساں کرنا شروع کیا ہے نیب بھی حرکت میں آ گیا ہے۔ اپوزیشن قیادت کے خلاف پے درپے بدعنوانیوں کے نئے نئے کیسز بننے اور کھلنے میں تیزی آ گئی ہے جبکہ سالوں سے نظر کرم کے منتظر وہ کیسز جن میں عمران خان صاحب اور رفقاء کار الزامات کا سامنا کر رہے ان پر نیب کی جانب سے پراسرار خاموشی طاری ہے۔

زبیدہ جلال کے خلاف نیب انکوائری سالوں سے سرد خانوں کے کسی نہاں خانے میں گم ہے، علیم خان، پرویز الٰہی، چودھری شجاعت، خالد مقبول صدیقی، وسیم اختر، زلفی بخاری، مالم جبہ کرپشن کیس، خیبرپختونخواہ میں اربوں روپے کے لوٹ مار کے کیسز، آر بی ایس کیس، خود نیازی صاحب غرض یہ کہ سارے نیب شدہ ایک جگہ اکٹھے کر کے ان کا تو گلدستہ بناکے اقتدار کے مسند پہ رکھ دیا گیا جب کہ اپوزیشن کو جعلی اور جھوٹے مقدمات میں الجھا کے ان کے خلاف کارروائیوں کو تیز کردیا گیا ہے۔

نیب کی یہ تیزی طراری خان صاحب کے کرپشن کے خلاف سخت بیانیے کو تقویت پہنچانے کی کوشش لگتی ہے۔ نیب ایک جانب اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف انکوائری کی منظوری دیتے ہی ان کی گرفتاری کی تیاری شروع کر دیتا ہے تو دوسری جانب فواد چودھری صاحب گرفتاری گرفتاری کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ عمران خان صاحب کرپشن کے خلاف سخت مؤقف رکھتے ہیں لیکن ان کا یہ سخت مؤقف صرف اپنے مخالفین کے خلاف کارروائیوں کی حد تک ہی نظر آتا ہے۔

عمران خان صاحب نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کرپشن لوٹ مار کے خلاف جہاد کریں گے، ہر بدعنوان کے خلاف بلا امتیاز قانون حرکت میں آئے گا مگر قوم نے دیکھا کہ احتساب کس طرح انتقام کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اب تو ہر کونے سے احتساب کے نام پر انتقام کی آوازیں بلند ہونے لگی ہے۔ نیب اپنے اہلکاروں کی جانب سے اختیارات کے بے دریغ اور بالکل ناجائز استعمال پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ خان صاحب نیب کی بدترین اور ناقص کارکردگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں تو دراصل وہ نیب کو انڈر پریشر لاکر اسے مخالفین کے خلاف مزید سرگرم کرکے اپنے خلاف تنقید کو کم کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

وہ اپنے پہلے چار ماہ میں اپنی ناقص حکومتی کارکردگی، اپنے وزراء کے ذاتی جھگڑوں اور اختلافات اور اپنی پارٹی کی نا اہلی کی وجہ سے عوام میں اپنی گرتی ہوئی مقبولیت اور ساکھ کو بچانے کے لئے نیب کو استعمال کر رہے ہیں۔ نیب چیئرمین، نیب کو سرکاری آلۂ کار بنانے پر تلے ہوئے ہیں وہ ایک قومی ادارے جس کے سب سے بڑے منصب پر براجمان ہوکر عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے انتہائی بھاری تنخواہیں اور مراعات حاصل کر رہے ہیں اسی ادارے کو صرف سیاسی انتقام کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

چیئرمین نیب کو احتسابی عمل غیرمتنازعہ بنانے کے اقدامات کرنے چاہئیں نہ کہ اپوزیشن کو ہراساں کرنے کے لئے اختیارات کا ناجائز استعمال۔ نیب نے ابھی تک عمران خان صاحب کے پہلے چار ماہ کے دوران ماسوائے اپوزیشن کے خلاف کارروائیوں کے، اپنے غیر جانبدار رویے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ نیب کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ اور خود وزیراعظم ان کی ناقص کارکردگی نا اہلی پر اکثر اوقات شدید ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے نیب قانون میں مؤثر تبدیلیوں کی حمایت بھی کرتے رہے ہیں۔

خان صاحب نے کچھ دن پہلے نیب کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ اگر نیب صحیح طریقے سے کام کرتا تو شاید آج کرپشن اس انتہا کو نہ پہنچی ہوتی۔ نیب جعلی اور کمزور کیس بناتا ہے جس سے بدعنوان لوگ چھوٹ جاتے ہیں۔ نیب کی اہلیت کا ندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نیب کی کارروائیوں کے نتیجے میں سزاؤں کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم ہے، جبکہ نیب اہلکار ملزمان سے پلی بارگین کرنے یا انہیں رضاکارانہ رقوم کی واپسی پر مجبور کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں تاکہ اپنے کمیشن میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرسکیں۔

نیب کی کرپشن کے خلاف مہم میں یقیناً دو سو یا چار سو ارب کی ریکوری ہوئی ہوگی مگر کرپشن میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا ہے جو نیب کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عمران خان صاحب کو کرپشن کے خلاف اپنے سخت مؤقف پہ قائم رہتے ہوئے بلا امتیاز اقدامات اٹھانے چاہئیں اور ساتھ ساتھ نیب میں موجود کرپٹ اور کالی بھیڑوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچانے کے مؤثر اقدامات لینے چاہئیں تاکہ احتساب سے انتقام کے تاثر کو زائل کیا جا سکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).